پشاور میں بم دھماکے، تیس سے زائد شہری مارے گئے
11 جون 2011خیبر پختونخواہ کے صدر مقام میں یہ بم دھماکے خیبر سپر مارکیٹ نامی بازار میں رات کے قریب بارہ بجے ہوئے۔ اس سپر مارکیٹ کے اردگر بعض اخباری دفاتر، طالب علموں کی رہائش گاہیں اور ایک ہوٹل سمیت بعض دیگر دکانیں قائم ہیں۔ ان دھماکوں میں زخمی ہونے والوں کو لیڈی ریڈنگ اور کمبائنڈ ملٹری ہسپتال لے جایا گیا جہاں 20 سے زائد افراد کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔
بعض ذرائع کے مطابق خیبر سپر مارکیٹ میں تین دھماکے ہوئے جبکہ بعض رپورٹوں میں دھماکوں کی تعداد دو بتائی جارہی ہے۔ مقامی میڈیا کے مطابق ایک ریستوران میں گیس سلینڈر کے پھٹنے سے پہلا دھماکہ ہوا، جیسے ہی وہاں لوگوں کا رش بڑھا تو دوسرا دھماکہ ہوگیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق یہ خودکش حملہ تھا جبکہ بم ڈسپوزل سکواڈ کے مطابق کم از کم ایک بم دھماکے میں ٹائمر استعمال کیا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پشاور کے سینیئر پولیس عہدیدار اعجاز خان کے حوالے سے ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق کی ہے۔ اعجاز خان کے بقول، ’’پہلا دھماکہ قدرے معمولی تھا مگر جیسے ہی دھماکے کے مقام کے پاس لوگ جمع ہوئے تو دوسرا دھماکہ ہوا جو بہت بڑا تھا۔‘‘
صوبائی وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے دہشت گردی کی اس واردات میں بعض صحافیوں اور پولیس اہلکاروں کے بھی زخمی ہونے کی اطلاع دی ہے۔ فوری طور پر کسی نے بھی دہشت گردی کے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بعض رپورٹوں میں اسے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد شدت اختیار کر جانے والے دہشت گردانہ واقعات کی کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
اے ایف پی کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں 2007ء کے لال مسجد آپریشن کے بعد سے اب تک مختلف دہشت گردانہ کارروائیوں میں لگ بھگ ساڑھے چار ہزار شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: عاطف توقیر