پناہ کی درخواستوں کی جانچ سرحدوں پر ہی، جرمن وزیر کی تجویز
1 اکتوبر 2015جرمن وزیر داخلہ نے دارالحکومت برلن میں ایک نشریاتی ادارے سے بات چیت میں کہا کہ ہوائی اڈوں کی طرح سیاسی پناہ کی درخواستوں کی جانچ کا نظام ملک کے تمام انٹری پوائنٹس یا داخلے کے مقامات پر بھی متعارف کرایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی اس تجویز کی فی الحال جرمن کابینہ نے منظوری نہیں دی تاہم ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کے قواعد کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک نیا قانونی مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔ ’’ہم ہوائی اڈوں پر جاری اس عمل سے واقف ہیں، جہاں ہم ایئر پورٹ پر ہی یہ جانچ کر لیتے ہیں کہ آیا کسی کی سیاسی پناہ کی درخواست ٹھیک ہے، یا اسے واپس بھیج دیا جائے۔‘‘
ڈے میزیئر نے کہا کہ ان کے خیال میں ملک کی تمام زمینی سرحدی گزرگاہوں پر یہ عمل متعارف کرایا جا سکتا ہے، جس سے جرمنی سیاسی پناہ سے متعلق یورپی قواعد کے دائرہ کار میں آ جائے گا۔ تاہم ان کا یہ بھی کہا تھا، ’’اس پر ظاہر ہے اب بحث ہو گی۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ڈے میزیئر نے اپنی اس تجویز سے متعلق تفصیلات نہیں بتائیں اور نہ ہی یہ بتایا کہ زمینی سرحدی کراسنگز پر ایسا کوئی نظام متعارف کرانے کے لیے کس قسم کا انفراسٹرکچر درکار ہو گا۔
ڈے میزیئر کے اس منصوبے پر وسیع تر حکومتی اتحاد میں شامل جماعت SPDکی جانب سے تنقید سامنے آئی ہے، جب کہ گرین پارٹی نے بھی اس منصوبے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
ایس پی ڈی کے نائب سربراہ رالف شٹیگنر نے برلن میں جرمن روزنامے ’ٹاگیس اشپیگل‘ سے بات چیت میں کہا، ’’ادھورے منصوبے مددگار ثابت نہیں ہوتے بلکہ غیریقینی صورت حال میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت سیاسی پناہ کے بنیادی انسانی حق پر کسی بھی قدغن کو مسترد کر دے گی۔
گرین پارٹی کی رہنما زِیمونے پیٹر نے بھی وفاقی وزیر داخلہ کی اس تجویز پر سخت تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ’’سیاسی پناہ کی درخواستوں کو فوری طور پر جانچ کے عمل سے گزارنا بنیادی انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی سے متصادم عمل ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اس طرح ملکی سرحدوں کے باہر بڑی بڑی مہاجر بستیاں وجود میں آ جائیں گی اور ان مہاجرین کی دیکھ بھال مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی پناہ کی درخواستوں کو نمٹانے سے متعلق مناسب اور قابل عمل نظام بھی متاثر ہو گا۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے یورپ پہنچنے والوں کی اہم ترین منزل جرمنی ہے، جس نے ستمبر کے وسط میں ایک مرتبہ پھر سرحدی چیک پوائنٹس متعارف کرا دیے ہیں، تاکہ مہاجرین کے اس بہاؤ کو روکا جا سکے۔
ستمبر کے مہینے میں جرمنی میں دو لاکھ 70 ہزار سے دو لاکھ 80 ہزار کے قریب مہاجرین پہنچے۔ یہ تعداد گزشتہ پورے سال میں جرمنی پہنچنے والوں کی تعداد سے بھی زیادہ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک جرمنی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد قریب ایک ملین تک ہو سکتی ہے۔ جنوبی ریاست باویریا کی جانب سے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ آسٹریا کے ساتھ سرحد پر ٹرانزٹ زونز بنائے، جہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کو قبول یا رد کیا جا سکے اور وہیں پر مہاجرین کو تیزی سے رجسٹریشن کے عمل سے گزارا جائے۔