پناہ گزينوں کی منتقلی پر توجہ دی جائے، اقوام متحدہ
24 اکتوبر 2015اقوام متحدہ سے وابستہ دو ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ بحیرہء روم میں مہاجرین کی کشتیوں کے خلاف طاقت کا استعمال انہیں روکنے یا اسمگلروں کی حوصلہ شکنی کا باعث نہیں بنے گا۔ اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیشی اہلکار برائے حقوقِ تارکینِ وطن فرانسوا کریپو (Francois Crepeau) اور عالمی ادارے کی تارکین وطن کارکنوں کے حقوق سے متعلق کمیٹی کے سربراہ فرانسِسکو کاریَون (Francisco Carrion) نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد پر تنقید کی، جس میں یورپی یونین کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ بحیرہ روم میں انسانی اسمگلروں کی ایسی کشتیوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔ فرانسوا کریپو تنبيہ کرتے ہيں کہ يہ بحران دہائيوں تک جاری رہ سکتا ہے۔
يہ امر اہم ہے کہ اسی ماہ کے آغاز ميں سلامتی کونسل نے اسمگلروں کو زير حراست لينے اور ان کی کشتيوں کو ضبط کرنے سے متعلق مشن کی منظوری دی تھی۔ اس مشن کا مقصد ان گنت پناہ گزينوں کی يورپ آمد کو کنٹرول کرنا ہے۔
اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیشی اہلکار برائے حقوقِ تارکینِ وطن نے مزيد کہا کہ شام، ارٹريا اور شايد افغانستان کے شہريوں کے ليے بھی وہی کرنا چاہيے، جو تقريباً چاليس برس قبل انڈوچائنيز ری سيٹلمنٹ پروگرام کے تحت کيا گيا تھا۔ سن 1975 سے 1997ء کے درميان سابقہ فرانسيسی کالونيوں ويت نام، لاؤس اور کمبوڈيا سے متعدد قبائل کے کئی ملين افراد کو منظم انداز سے ديگر ممالک باقاعدہ منتقل کيا گيا تھا۔ فرانسوا کریپو ان دنوں مشرق وسطٰی اور شمالی افريقی ممالک سے يورپ پہنچنے والے پناہ گزينوں کے ليے کچھ اسی طرز کا منصوبہ تجويز کر رہے ہيں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر کينيڈا، امريکا، آسٹريليا اور نيوزی لينڈ يورپ کے ساتھ مل کر يہ کہيں کہ پناہ گزينوں کو آئندہ پانچ، چھ يا سات برسوں کے دوران يکساں تقسيم کر کے انہيں اپنے ہاں منتقل کرايا جائے، تو ہر ملک کے حصے ميں مہاجرين کی مقابلتاً کم تعداد آئے گی۔‘‘
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق شام ميں قريب پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے سبب چار ملين شامی باشندے نقل مکانی کر چکے ہيں۔ اس دوران قريب ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہيں اور 6.3 ملين اپنے ہی ملک ميں بے گھر ہو چکے ہيں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی تفتیشی اہلکار برائے حقوقِ تارکینِ وطن نے اميد ظاہر کی کہ اگر شام ميں آئندہ ايک دو برس ميں امن قائم ہو سکے اور کوئی فعال حکومت معاملات سنبال سکے، تو شامی شہريوں کی ايک بڑی تعداد يورپ سے واپس اپنے آبائی ملک کا رخ کر سکتی ہے۔