پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت اورغیر واضح آئینی صورت حال
26 جون 2008پنجاب اسمبلی کی ایک نشست پر ضمنی الیکشن میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کے بعد شہباز شریف نے رکن اسمبلی کے طور پر اپنی ذمے داریوں کا حلف اٹھایا اور پھران کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز ہونے میں بھی دیر نہ لگی۔ لیکن شہباز شریف کی ایک اور صوبائی حلقے سے انتخابی امیدواری کی جو درخواست دی گئی تھی وہ واپس نہ لی گئی اور اب پنجاب کے موجودہ وزیر اعلیٰ ایک اور حلقے سے بھی منتخب ہو گئے ہیں۔
ان حالات میں آئینی ماہرین یہ کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف کے صوبائی اسمبلی کی ایک اور نشست پر انتخاب کے بعد ان کی موجودہ رکنیت خود بخود منسوخ ہو گئی ہے۔ لہٰذا صوبائی قانون ساز ادارے کے رکن کے طور پر انہیں اپنے نئے حلقہ انتخاب سے منتخب ہونے والے سیاستدان کے طور پر نئے سرے سے حلف لینا ہوگا، کیونکہ ان کا اب تک موثر سمجھا جانے والا رکنیت کا حلف نامہ اور اس وجہ سے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر انتخاب دونوں ہی غحیر موثر ہو چکے ہیں۔
اس رائے کی کئی آئینی ماہرین حمائت کرتے ہیں تو کئی دیگر ماہرین یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ شہباز شریف اگلے تیس روز میں خود یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ وہ صوبائی اسمبلی کی کون سی نشست رکھنا چاہتے ہیں اور کون سی خالی کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم پاکستانی سیاست میں یہ موضوع عوامی اور سیاسی سطح پر ایک وسیع تر بحث کی وجہ بن جانے کے علاوہ متنازعہ بھی ہوچکا ہے۔
اس لئے کہ اگر شہباز شریف کو واقعی نئے سرے سے رکن اسمبلی کے طور پر اپنےعہدے کا حلف اٹھانا پڑا تو پاکستان کے مروجہ قوانین کے مطابق وہ پھر سے، یعنی اپنے سیاسی کیرئیر میں مجموعی طور پرتیسری مرتبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب نہیں ہو سکیں گے۔
پاکستان میں صوبائی سطح پر ایک آئینی بحران قرار دیئے جانے والے اسی تنازعے کو اپنی رپورٹ کا موضوع بنایا لاہور میں تنویر شہزاد نے۔