پولش کیتھولک چرچ میں بچوں کے جنسی استحصال کی سینکڑوں شکایات
29 جون 2021پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق کم عمر بچوں کے جنسی استحصال اور ان سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کی ان شکایات میں کیتھولک کلیسا سے وابستہ مختلف مذہبی شخصیات کے ان جرائم کا ذمے دار ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
کیتھولک اکثریتی آبادی والا ملک
پولینڈ مشرقی یورپ کا اکثریتی طور پر کیتھولک مسیحی آبادی والا ملک ہے اور وہاں کیتھولک چرچ بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ کا حامل ہے۔ اس ملک میں کچھ عرصہ پہلے تک کلیسائی اداروں میں بچوں سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں کے واقعات کے بارے میں کچھ بھی کہنا شجر ممنوعہ سمجا جاتا تھا۔
کلیسائی بچوں کا جنسی استحصال: انکشاف کنندگان کے لیے اعزازات
اب لیکن صورت حال کافی بدل چکی ہے اور اس ملک میں کلیسائے روم کو پہلے ہی ان الزامات کا سامنا ہے کہ وہاں کئی سرکردہ کلیسائی شخصیات کم سن بچوں کے جنسی استحصال کی مرتکب ہوئیں یا انہوں نے ایسے واقعات کی پردہ پوشی کی تھی۔
'جنسی استحصال کے انکشافات کی نئی لہر‘
کیتھولک کلیسا کی طرف سے پولینڈ میں بچوں کے تحفظ کی کوششوں کے لیے نامزد کردہ رابطہ کار اور Jesuit پادری ایڈم ذاک نے اس بارے میں اپنی چھان بین کے نتائج پر مشتمل رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا، ''حیران کن بات یہ ہے کہ گزشتہ سروے کے بعد سے ہمیں ایسی شکایات اور انکشافات کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ یقینی طور پر اب بھی ایسے کئی واقعات ہیں، جو تاحال پوشیدہ ہیں اور جو مستقبل میں رپورٹ کیے جاتے رہیں گے۔‘‘
بچوں سے جنسی زیادتیوں کا اسکینڈل: بچوں کا تحفظ کیسے کیا جائے
تنظیمی اعتراف: صرف ایک کیتھولک مسیحی تنظیم کے 33 پادریوں کی 175 بچوں سے جنسی زیادتیاں
ایڈم ذاک نے ایک آن لائن بریفنگ میں بتایا کہ جولائی 2018ء سے لے کر گزشتہ برس کے آخر تک پولینڈ میں کیتھولک چرچ کو کم عمر بچوں کے جنسی استحصال کے واقعات کی 368 شکایات موصول ہوئیں۔ انہوں نے کہا، ''ان واقعات میں سے کچھ کا ارتکاب عشروں پہلے کیا گیا تھا لیکن متاثرین نے ان کی باقاعدہ شکایات اب کی ہیں۔ دیگر واقعات جنسی استحصال کے حالیہ واقعات ہیں۔‘‘
نصف متاثرین کی عمریں پندرہ برس سے کم تھیں
فادر ذاک نے بتایا کہ کلیسا کو ملنے والی جنسی استحصال کی ان 368 شکایات میں سے 39 فیصد واقعات کو شواہد کی بنا پر درست تسلیم کیا گیا، 51 فیصد شکایات کی چھان بین جاری ہے جبکہ 10 فیصد شکایات کو چھان بین کے بعد ان کے قابل اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے مسترد کر دیا گیا۔
جنسی زیادتیوں کی تفتیش خفیہ نہیں رکھی جائے گی، پوپ
کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے جنسی استحصال کے ان واقعات میں نصف متاثرین کی عمریں 15 برس سے کم تھیں۔ ان میں سے تقریباﹰ نصف تعداد لڑکوں کی تھی جبکہ متاثرین کا دوسرا نصف حصہ لڑکیوں پر مشتمل تھا۔ ایڈم ذاک نے مزید بتایا کہ چند واقعات میں تو ایسے جرائم کے مرتکب چرچ اہلکار متاثرہ بچوں کا ایک عشرے سے بھی زیادہ عرصے تک جنسی استحصال کرتے رہے۔
'حالیہ واقعات کی تعداد بھی کم نہیں‘
پولستانی کیتھولک چرچ میں بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق یہ تازہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے ایڈم ذاک نے کہا کہ کلیسا کو ایسے واقعات کی جو شکایات ملی ہیں، ان میں 1958ء میں پیش آنے والے واقعات سے لے کر 2020ء میں پیش آنے والے واقعات بھی شامل ہیں۔ ذاک کے بقول ایسے حالیہ واقعات کی تعداد بھی ''تھوڑی تو بالکل نہیں ہے۔‘‘
بچوں سے جنسی زیادتی: ویٹیکن کے سابق مالیاتی سربراہ کو سزائے قید
پولش کیتھولک چرچ میں بچوں کے جنسی استحصال اور ان سے کی جانے والی جنسی زیادتیوں سے متعلق گزشتہ کلیسائی رپورٹ بھی بہت تشویش ناک تھی۔ تب یہ تصدیق کی گئی تھی کہ 1990ء اور 2018ء کے درمیانی عرصے میں تقریباﹰ 400 کلیسائی اہلکار اور نمائندے کم سن بچوں اور نابالغ نوجوانوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کے مرتکب ہوئے تھے۔
اعلیٰ کلیسائی رہنماؤں پر پابندیاں اور استعفے
گزشتہ برس سے لے کر اب تک ویٹیکن کی طرف سے پولش کیتھولک چرچ کے چار بشپس پر اس وجہ سے پابندیاں لگائی جا چکی ہیں کہ وہ کلیسائی اہلکاروں کی بچوں سے جنسی زیادتیوں کی پردہ پوشی کے مرتکب ہوئے تھے۔
بچوں سے جنسی زیادتیاں: ایک اختتام اور چھوٹا سا آغاز، تبصرہ
اسی نوعیت کے الزامات کے باعث دو پولش کیتھولک بشپس مستعفی بھی ہو چکے ہیں۔ ایسے ہی الزامات کی وجہ سے ویٹیکن کی طرف سے آرچ بشپ گلبینووِٹس پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے جبکہ آرچ بشپ گلوڈز کو بھی مستعفی ہونا پڑ گیا۔
م م / ک م (اے ایف پی، روئٹرز)