پولینڈ میں نئے میڈیا قوانین ’یورپی اقدار کی خلاف ورزی‘
3 جنوری 2016یورپی کمشنر اوئٹنگر نے کہا کہ پولینڈ میں اس قانون کی منظوری سے حکومت کے پاس یہ اختیار آ گیا ہے کہ وہ ملکی میڈیا پر اثر انداز ہو سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اگر پولینڈ میں اس قانون کا نفاذ رہتا ہے، تو اس کے خلاف متعدد اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو بالآخر یورپی کونسل میں پولینڈ کو اس کے ووٹ سے محروم کیے جانے تک پر منتج ہو سکتے ہیں۔ یورپی کونسل میں یورپی یونین کی 28 رکن ریاستوں کے سربراہان مملکت و حکومت شامل ہوتے ہیں۔
جرمن اخبار فرانکفرٹر الگمائنے سائٹنگ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں یورپی کمشنر برائے ڈیجیٹل اکانومی اوئٹنگر نے کہا، ’’بہت سی ایسی وجوہات موجود ہیں، جن کی وجہ سے قانون کی بالادستی کا نظام حرکت میں لایا جا سکتا ہے اور اس کے تحت وارسا کی نگرانی کی جا سکتی ہے۔‘‘
اوئٹنگر کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب پولینڈ کی قدامت پسند حکومت نے گزشتہ بدھ کے روز ایک نئے قانون کے ذریعے سرکاری میڈیا کا کنڑول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ نئے قانون کے تحت پبلک براڈکاسٹنگ اداروں کے سربراہان کا تقرر اب براہ راست حکومت کی جانب سے ہو گا۔ اس قانون کے حوالے سے یورپی یونین سخت تشویش کا اظہار کر رہی ہے۔ انسانی حقوق کی یورپی تنظیموں نے بھی اس قانون کی شدید مخالفت کی ہے۔
فرینکفرٹ سے شائع ہونے والے اس جرمن اخبار کے مطابق یورپی کمیشن کے صدر ژاں کلود ینکر نے اس معاملے کو جنوری کی 13 تاریخ کو کمیشن کے اجلاس کے ایجنڈے میں شامل کر لیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ینکر سن 2014 میں طے کیے گئے ایک نظام کو لاگو کرنے کا عمل شروع کرنے والے ہیں، جس کے تحت اگر کسی رکن ریاست میں ’قانون کی بالادستی کو منظم انداز سے خطرے سے دوچار‘ کر دیا جائے، تو اس کے خلاف اقدامات کیے جا سکیں گے۔
FAZ کہلانے والے اس اخبار کے مطابق، ’’اگر کوئی ایسا ملک جس کے خلاف یہ اقدامات کیے جا رہے ہوں، یورپی کمیشن کی جانب سے اس سلسلے میں دی جانے والی تجاویز سے اتفاق نہ کرے، تو اس کے خلاف بنیادی یورپی اقدار کی خلاف ورزی کے زمرے میں کارروائی کا آغاز ہو سکتا ہے، جس میں ایسے کسی ملک سے یورپی کونسل میں ووٹنگ کا اختیار واپس لے لینا بھی شامل ہے۔‘‘