پولیو کا پھیلاؤ، پاکستان پرعالمی سفری پابندیوں کی سفارش
5 مئی 2014ڈبلیو ایچ او کی جانب سے پیر کے روز جنیوا میں جاری کی گئیں ہدایات کے مطابق ان ممالک سے بیرونِ ملک سفر کرنے والے افراد پر سفر سے کم از کم چار ہفتے اور زیادہ سے زیادہ ایک برس قبل انسدادِ پولیو کی ویکسین پینا لازمی ہوگا۔ اس کے علاوہ ہنگامی حالات میں سفر کرنے والوں کو بھی یہ ویکسین پینا ہوگی۔
ان ہدایات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان ممالک کے مسافروں کو ویکسین پینےکا تصدیقی سرٹیفیکیٹ بھی حاصل کرنا ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندی عائد کرنے کے اعلان پر رد عمل طاہر کرتے ہوئے پاکستان کی وفاقی وزیر مملکت برائے ہیلتھ ریگولیشنز سائرہ افضل تارڑ نے کہا کہ انہوں نے آئندہ بدھ کو تمام وفاقی اور صوبائی صحت کے محکموں کےحکام کا اجلاس طلب کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈبلیو ایچ او پورے پاکستان کے بجائے صرف ان علاقوں کے لوگوں کے لیے یہ پابندی عائد کرتا جو پولیو سے متاثرہ ہیں تو بہتر ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ یہ پابندی تین ماہ کے لئے ہے اور اس دوران وہ کوشش کریں گی کہ اس پابندی کو ختم کرا لیاجائے۔پولیو کے خاتمے کے لئے اپنی حکومت کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے سائرہ افضل نے کہا، ’سول ملٹری کوآرڈینیشن بہتر کرائی ہے۔ پرائم منسٹر صاحب نے خود براہ راست ڈی جی ملٹری آپریشنز کو کہا ہے جی ایچ کیو میں بات ہوئی ہے اور وہ جو علاقے ہیں ان کو قابل رسائی بنانا ہے اور انشاء اللہ اسی طرح کام ہو گا۔ اس کے بعد ہم نے یہ کیا ہے کہ صوبوں کی حدود پر بھی ٹرانزٹ پوائنٹس کو مضبوط کر رہے ہیں، مستقل ٹرانزٹ پوائنٹس میں اضافہ کر رہے ہیں، تو یہ ساری چیزیں ہیں جو ہم اپنی طرف سے کر رہے ہیں۔‘
گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں جاری کی گئی پاکستان انسانی حقوق کمشن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں 2012 ء کی نسبت 2013 ء میں پولیو کے زیادہ کیسزز سامنے آئے ہیں۔ سال 2013 ء میں پاکستان میں پولیو کے 85 تصدیق شدہ واقعات منظر عام پر آئے جن میں سے 60 واقعات صرف فاٹا میں سامنے آئے۔ گزشتہ سال انسداد پولیو کی ٹیموں پر حملوں میں پولیو کے قطرے پلانے والے بیس رضاکار اور ان کی حفاظت پر معمور نو اہلکار بھی ہلاک ہوئے۔
روان برس بھی پاکستان میں پولیو کے مرض میں گزشتہ سال کی نسبت تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ پاکستان میں پولیو کیسوں کی تعداد میں اس سال اب تک 600 فیصد اضافہ ہوا ہے۔سال2013 ء میں اپریل تک پاکستان میں پولیو کے آٹھ واقعات سامنے آئے تھے جب کہ اس سال59 کیس منظرِ عام پر آچکے ہیں ہیں۔ جن میں سے سب سے زیادہ 46 فاٹا سے سامنے آئے ہیں۔
پاکستان میں ڈبلیو ایچ او کے قومی رابطہ کار زبیر مفتی کا کہنا ہے پاکستان میں سکیورٹی کے مسائل اور بعض علاقوں میں والدین کی جانب سے کم عمر بچوں کو انسداد پولیو ویکسین کے قطرے پلانے سے انکار کے سبب انسداد پولیو کی کوششوں کو نقصان پہنچا۔ انہوں نےکہا، ’اس سال افغانستان میں چار کیسزز ہیں، چاروں پاکستانی وائرس کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے پولیو وائرس شام پہنچا گیا ہے اور حال ہی میں عراق سے کیس سامنے آیا ہے، وہ بھی پاکستانی علاقے کا وائرس ہے۔ تو بین الاقوامی طور پر جتنے بھی ممالک ہیں، وہ اب شدید پریشانی کا شکار ہیں کہ انہوں نے پولیو اپنے ملکوں سے ختم کردیا ہے لیکن پاکستان کی وجہ سے دوبارہ پھیلنے کا خدشہ ہے، تو تمام دنیا کی اقوام ڈبلیو ایچ اواور دیگر اداروں سے اس پھیلاؤ کی روک تھام کا مطالبہ کرتے آئے ہیں۔‘
پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت کی آبادی ایک ارب سے زائد ہونے کے باوجود وہاں پولیو کے مرض کا خاتمہ کیا گیا۔ اٹھارہ کروڑ آبادی کے ملک پاکستان میں ایسا کیوں ممکن نہیں اس بارے میں سائرہ افضل تارڈ کا کہنا ہے کہ بھارت کے اور پاکستان کے زمینی حقائق میں فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں پولیو کے مرض پر قا بو نہ پانے کی چند وجوہات بین الاقوامی حالات سے بھی جڑی ہوئی ہیں۔