پوپ فرانسس اور کیتھولک کلیسا کا اخلاقی دیوالیہ پن، تبصرہ
28 اگست 2018میں نے پہلی مرتبہ امریکی کیتھولک مسیحیوں کے گڑھ بوسٹن کا دورہ سن دو ہزار دو میں کیا تھا۔ اس وقت کلیسائی شخصیات کی طرف سے بچوں کے جنسی استحصال کا پہلا اسکینڈل نیا نیا منظر عام پر آیا تھا اور ہر طرف یہ بات پھیل چکی تھی۔ بوسٹن کے انکشافات کے بعد اسی طرح کی کہانیاں آسٹریلیا، آئرلینڈ، جرمنی، فلپائن اور تنزانیہ میں بھی منظر عام پر آئی تھیں۔ ان اسکینڈلز سے لگنے والے دھچکے، خوف کے احساس، بداعتمادی، مایوسی، درد اور تکلیف کو مسیحی دنیا کے کونے کونے میں محسوس کیا گیا تھا۔
ان اسکینڈلز اور ان کی وسعت نے عقیدت مندوں کو متحد کر دیا تھا۔ وہ ایک ساتھ مل کر طاقت ور پادریوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ دوسری جانب اس طرح کے پے در پے انکشافات کے نتیجے میں بہت سے لوگوں نے کیتھولک چرچ سے دوری بھی اختیار کر لی تھی۔
’خدا کے ملازمین‘ کی طرف سے یہ خبیثانہ اور ممنوعہ جنسی عمل کیتھولک کلیسا کی مقدس روح کے بالکل برعکس ہے۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی قابل فہم ہے کہ کیوں کلیسا کے کچھ طرف دار یہ یقین رکھتے ہیں کہ ایسے انتہائی غیراخلاقی اعمال کے پیچھے خود شیطان ہے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ، چند ایک واقعات کو چھوڑ کر، جنسیت کی نفی کرنے والے کسی بھی نظام کا اسی کے نتیجے میں عمل میں آنے والی بداعمالیوں کے ساتھ ایک مستقل تصادم تو یقینی سی بات ہی ہو گی۔ مجرد یا غیر شادی شدہ رہنے پر مجبور کرنے والے پوپ کا چرچ اخلاقی طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور اس نے اپنے آپ کو خود ہی تباہ کر دیا ہے۔ چرچ میں اصلاحات کے بعد اب اس ادارے کو یوم حساب کا سامنا ہے۔ اب کسی ایسے علاج کا خیال ہی مشکل ہے، جو اسے اپنی موت سے بچا سکے۔
تازہ الزامات پوپ فرانسس کے لیے مہلک دھچکا؟
اب پوپ فرانسس نئے الزامات کی زد میں ہیں۔ کیتھولک کلیسا کے انتہائی قدامت پرست آرچ بشپ کارلو ویگانو نے انکشاف کیا ہے کہ پوپ فرانسس کو امریکی کارڈینل تھیوڈور میک کیرک کی طرف سے کیے جانے والے بچوں کے جنسی استحصال کی سن 2013ء سے ہی خبر تھی۔ آرچ بشپ ویگانونہ صرف ویٹیکن کے ایک سابق اعلیٰ اہلکار ہیں بلکہ وہ ویٹیکن کی طرف سے سفیر بھی رہ چکے ہیں۔
یہ خبر پوپ فرانسس کے لیے ایک ایسے وقت پر دھچکا ثابت ہوئی، جب وہ آئرلینڈ کے دورے پر تھے اور کلیسائی شخصیات کی جنسی بدسلوکیوں کے حوالے سے معافی مانگ رہے تھے۔
امریکی ریاست پینسلوانیا میں منظر عام پر آنے والا حالیہ اسکینڈل آخری ثابت نہیں ہوگا۔ بالکل ویسے ہی جیسے سن 2002ء میں بوسٹن کا اسکینڈل پہلا نہیں تھا۔ یہ تو بس وہ پہلا اسکینڈل تھا، جو منظر عام پر آ گیا تھا۔ کئی عشروں بلکہ کئی صدیوں سے چرچ کے ناپسندیدہ اعمال کو عوامی احتساب اور تنقید سے دور اس کلیسا کے سائے تلے چھپایا جاتا رہا ہے۔ اُس وقت چرچ اس قدر طاقت ور تھا کہ اس کے دروازوں پر نجات کے لیے آنے والے انسانوں کو تباہی سے کوئی بھی نہیں بچا سکتا تھا۔
اب اس ادراک کا وقت آن پہنچا ہے، جس کے بارے میں مسیحیت میں میتھیو کی انجیل میں بھی لکھا ہے، ’’نقصان دہ جڑی بوٹیوں کو لازمی طور پر لیکن اس طرح اکھاڑ پھینکنا چاہیے کہ ان سے گندم کی فصل کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔‘‘ لیکن اس طرح کا صفائی ستھرائی کا عمل ایک ایسے کلیسا میں ناممکن ہے، جہاں پیچیدگیاں نیچے سے اوپر تک جاتی ہوں۔ لیکن اب اس معاملے میں کم از کم یہ بات کسی حد تک خوش آئند ہے کہ نئے سامنے آنے والے ایسے ہر واقعے میں کلیسا کمزور کے ساتھ کھڑا ہے، نہ کہ طاقت وروں کے ساتھ۔
الیگزانڈر گورلاخ ماہر لسانیات اور الٰہیات دان ہیں۔ وہ شناخت، سیاست، مذہب اور لبرل جمہوریت کے ساتھ ساتھ سیکولرزم، تکثیریت اور عالمگیریت پر بھی کام کر چکے ہیں۔