تیس سالہ جنگ: مذہب طاقت اور قبضے کی کشمکش
وسطی یورپ کا ایک ایسا علاقائی تنازعہ، جو دنیا میں ایک بدترین جنگ کی صورتحال اختیار کر گیا تھا۔ تئیس مئی سن 1618 کو مذہب کی بنیاد پر شروع ہونے والی یہ لڑائی یورپ میں برتری حاصل کرنے کی ایک رزمیہ جنگ بن گئی۔
لوٹ مار اور تشدد کا بے جا استعمال
آخری مراحل میں یہ جنگ وسطی یورپ کے ان علاقوں تک محدود ہو گئی جہاں کھانے یا لوٹنے کو کچھ باقی بچا تھا۔ کسانوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ وہ اپنے اناج کے خفیہ ذخائر کے بارے میں بتائیں۔ سویڈن کے زر پرست افراد نے عام شہریوں کو تشدد اور دہشت کا نشانہ بنانے کے کئی لرزہ خیز طریقے اختیار کیے۔ ان میں لوگوں کو زبردستی سویڈش ڈرنک‘ پلانا بھی شامل تھا، جس کے اجزا میں پیشاب، پاخانہ اور آلودہ پانی تھا۔
کیتھولک اور پروٹسٹنٹ آمنے سامنے
ابتدا میں یہ لڑائی کیتھولک اور پروٹسٹنٹ ریاستوں کے مابین تھی، جو یورپ کے طاقتور ممالک تک پھیل گئی۔ مقدس رومی سلطنت بھی اس میں شامل ہو گئی، جس کا مقابلہ پروٹسٹنٹ مسیحیوں سے تھا۔ سن 1630 میں سویڈش شاہ گستاف الثانی اڈولف بھی اس جنگ کے فریق بن گئے۔ وہ جرمن پروٹسٹنٹ کمیونٹی کو کیتھولک مسیحیوں کے حملوں سے بچانا اور یورپ میں اپنا اثرورسوخ بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے بطور کمانڈر کئی معرکوں میں شرکت کی۔
شاہ کی موت
اس جنگ کی سب سے بڑی لڑائی سولہ نومبر سن 1632 کو لؤٹزن کے مقام پر ہوئی۔ اس معرکے میں اطراف کو شدید جانی و مالی نقصان ہوا لیکن فاتح کوئی بھی نہ بن سکا۔ اس جنگ میں سویڈش بادشاہ کی پروٹسٹنٹ افواج کا سامنا البرشت فان والن شٹائن کی قیادت میں کیتھولک رومن افواج کے ساتھ تھا۔ اس لڑائی میں گستاف الثانی اڈولف مارے گئے۔ یوں کیتھولک افواج نے جیت کا اعلان کر دیا لیکن ان کا یہ اعلان صرف پراپیگنڈا پر ہی مبنی تھا۔
جنگ سے فائدہ حاصل کرنے والے
اس یورپی جنگ کی وجہ سے کئی فوجی کمانڈروں کو فائدہ بھی ہوا۔ ان میں ایک نام جنرل البرشت فان والن شٹائن کا بھی ہے۔ اس جنگ کے اہم کمانڈر والن شٹائن نے ایک نظام تشکیل دیا، جس کے تحت کسانوں، تاجروں اور عام شہریوں سے زبردستی اشیائے خوردونوش جمع کی جاتی تھی۔ عام لوگوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا، حتیٰ کہ ان کی تنخواہیں بھی عام لوگ ہی ادا کرتے تھے۔ والن شٹائن کا موٹو تھا، ’’جنگ خود ہی لوگوں کو خوراک دے گی‘‘۔
سر عام پھانسیاں
اس تیس سالہ جنگ کے دوران تشدد اور لوگوں کو ہلاک کرنا معمول کی بات رہی۔ مشہور مصور ژاک کالوت نے اس جنگ کی تباہ کاریوں کو اپنی متعدد پینٹگز میں عکس بند کیا۔ انہوں نے عوام کو مظلوم اور ظالم دونوں کے ہی روپ میں دکھایا۔ ان کی ایک مشہور پینٹنگ ’دی ہینگنگ‘ ہے، جو سن سولہ سو بتیس اور تینتیس کے دوران بنائی گئی تھی۔
جنگ بندی کا تاریخی معاہدہ
تب شاید ہی کسی کو یہ یقین تھا کہ یہ جنگ کبھی ختم بھی ہو سکتی ہے تاہم آخر کار طویل مشاورتی عمل کے نتیجے میں قیام امن ممکن ہو ہی گیا۔ پانچ سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد کیتھولک اور پروٹسٹنٹ حریفوں نے پندرہ مئی سن سولہ سو اڑتالیس کو موجودہ جرمن شہر میونسٹر میں جنگ بندی ڈیل کو حتمی شکل دی۔ اس جنگ نے یورپ کو تباہ کر کے رکھ دیا تھا۔