1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرس حملے، پاکستانیوں کی مشکلات میں اضافے کا خدشہ

شکور رحیم، اسلام آباد16 نومبر 2015

پیرس حملوں کے بعد جہاں پاکستان میں متاثرین کے ساتھ حکومتی اور عوامی سطح پر ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہیں یورپ میں مقیم پاکستانیوں کے لیے ممکنہ مشکلات کے حوالے سے بھی خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/1H6as
Chaudhry Nisar Ali Khan
تصویر: picture-alliance/dpa/T.Mughal

اس ضمن میں پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے ایک تازہ بیان میں کہا ہے کہ فرانس اور دنیا میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے بیرونِ ملک بالخصوص یورپ میں رہنے والے پاکستانیوں کے لیے مشکلات اور مسائل میں اضافہ ہو گا۔

اتوار کی شام جاری کیے گئے ایک بیان میں چوہدری نثار علی خان نے کہا، ’’بیرونی ممالک میں رہنے والے ہم وطن پاکستان کا اثاثہ ہیں اور انہیں بلاوجہ کی مشکلات اور مسائل سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔‘‘

انہوں نے کہا کہ دنیا کے مختلف ممالک میں پاکستانی سفارت خانوں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستانیوں کو تمام ممکنہ قانونی معاونت فراہم کی جائے۔

چوہدری نثار کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں وزارت داخلہ، وزارت خارجہ اور ایف آئی اے کے حکام کو ایک ایسی پالیسی اور لائحہ عمل وضع کرنا چاہیے جس سے بیرون ملک بسنے والے پاکستانیوں سے کسی غیر قانونی سلوک پر ان کی مدد کی جا سکے۔

چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ کہ دہشت گردوں کے بعد انسانی اسمگلرز بیرون ملک سب سے زیادہ پاکستان کی بدنامی کا باعث ہیں اور اس کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات ناگزیر ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد انسانیت اور پاکستانیت کے نام پر دھبہ ہیں۔ اُنہوں نے ایف آئی اے کو غیر قانونی انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے اقدامات تیز کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے دو روز میں ایک واضح لائحہ عمل وزارت داخلہ کو پیش کرنے کا حکم دیا، جس کی روشنی میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے بارے میں پالیسی کو مزید سخت کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پیرس حملوں کے بعد اس طرح کے خدشات کا صرف حکومتی سطح پر ہی اظہار نہیں کیا جارہا بلکہ یورپ میں رہنے والے پاکستانی شہریوں کے اہل خانہ، رشتے دار اور عزیز واقارب بھی پریشان ہیں۔

فرانس کے دارالحکومت پیر س میں مقیم سجاد (فرضی نام) کے بھائی سہیل نے اسلام آباد میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا چھوٹا بھائی روز گار کے سلسلے میں گزشتہ تیرہ سال سے پیرس میں رہائش پذیر ہے۔ سہیل کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب بھی فرانس میں انتہا پسندی یا دہشتگردی کا کوئی انفرادی واقعہ رونما ہویا پھر پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت کے بعد ہونے والے حملے، انہیں ہمیشہ اپنے بھائی کی سلامتی کا خدشہ لاحق رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اب بھی جو حملے ہوئے ہیں تو ہمارے سارے خاندان اور دوستوں کے فون آرہے ہیں، وہ بھائی کی خیریت کا پوچھ رہے ہیں، میں نے اسے فون کیا تو وہ مجھے حوصلہ دے رہا تھا کہ سب ٹھیک ہے لیکن میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ اندر سے پریشان تھا۔‘‘

سہیل کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو واپس اپنے ملک پاکستان آ جانے کا مشورہ دینا چاہتے تھے لیکن پھر وہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا نہیں کر سکے۔