پینشن، جرمن انتخابات کا ایک انتہائی متنازعہ مدعا
12 جون 2021جرمن ادارے بیرٹلزمان فاؤنڈیشن کے ایک خصوصی سروے کے مطابق آئندہ انتخابات میں جرمن ووٹروں کے لیے پینشن، مہاجرت اور ماحولیاتی تحظ کے بعد اہم ترین قومی مسئلہ ہو گی۔ رواں ہفتے ریٹائرمنٹ کی عمر کو مزید بڑھانے سے متعلق ایک نئے منصوبے پر جرمن سیاسی منظرنامے پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
جرمنی میں اس وقت بیس فیصد آبادی پینسٹھ برس یا زائد عمر کی ہے جب کہ سن 2060 تک یہ تعداد تینتیس فیصد تک پہنچنے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ کورونا کی وبا سے قبل جرمنی میں ورک فورس (ملازمت کرنے والے افراد) چوالیس ملین تھی، جو ماضی کے مقابلے میں خاصی زیادہ ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اتنی زیادہ اب بھی نہیں کہ ڈیموگرفک شفٹ کی وجہ سے پینشن سرمایے کے فرق کو پورا کر سکے۔
جرمنی میں پیشہ ورافراد میں بڑھاپے تک کام کرنے کی لگن
جرمنی: بڑھاپے میں غربت کے بڑھتے ہوئے خطرات
فرائی برگ یونیورسٹی سے وابستہ ماہر معیشت بیرنڈ رافیل ہیوشن نے جرمن نشریاتی ادارے این ٹی وی سے بات چیت میں کہا، "جرمن کا پینشن نظام اپنی تباہی کے قریب ہے۔"
سن 2019 میں ڈوئچے بینک کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے میں تین چوتھائی افراد جن کی عمریں 20 سے 65 برسوں کے درمیان تھیں، نے کہا تھا کہ انہیں لگتا کہ ان کی پبلک پینشن فقط بنیادی ضرورتیں ہی پوری کر پائے گی جب کہ اس سروے میں شامل قریب نصف افراد کا کہنا تھاکہ انہیں خدشہ ہے جرمنی میں ریٹائرمنٹ نظام بلآخر گر جائے گا۔
جرمن میں ریٹائرمنٹ نظام کام کیسے کرتا ہے؟
جرمنی میں تمام ملازمت پیشہ افراد (ماسوائے سول سرونٹس) اپنی ماہانہ تنخواہ کا نو فیصد پینشن فنڈ میں جمع کراتے ہیں، اسی طرح اتنا ہی حصہ ملازمت دینے والا ادارہ بھی مہیا کرتا ہے۔ ریٹائرمنٹ پر ان افراد کو ان کی تنخواہ کے اوسط اور ملازمت کے مجموعی برسوں کے اعتبار سے ماہانہ بنیادوں پر پینشن ملتی ہے۔ لیکن اگر پینشن لینے والوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے، جب کہ پینشن دینے والوں کی تعداد کم ہو، تو مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔
جرمنی میں غیرمتوقع ڈیموگرافک تبدیلی
انیس سو چھیاسی میں قدامت پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک یونین سے وابستہ وزیر محنت نوبیرٹ بلیوم نے پینشن نظام کی تباہی کے خدشات کے جواب میں کہا تھا، "پینشنز محفوظ ہیں۔"
تاہم ریٹائرہونے والوں اور ریٹائرمنٹ فنڈ میں سرمایہ فراہم کرنے والوں کے درمیان فرق مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ جرمنی میں اس وقت اگر کوئی شخص 65 برس کی عمر میں ریٹائرہوتا ہے، تو مرد اوسطاً چودہ برس مزید جیتا ہے جب کہ خاتون اوسطاً انیس برس۔ ستر کی دہائی میں یہ اوسط دو اور آٹھ برس تھی۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ مہاجرت کے باوجود جرمنی میں ورک فورس میں کمی واقع ہو گی۔
معمر افراد کے لیے غربت ایک حقیقی خطرہ
کم اجرت، پارٹ ٹائم نوکری پر انحصار، مستقل کی بجائے کانٹریکٹ ملازمتوں میں اضافہ وہ اہم وجوہات ہیں، جن کی بنا پر معمر افراد میں غربت ایک اہم مسئلہ بن گئی ہے۔
بائیں بازوں کی جماعت لیفٹ پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ڈیٹمر بارچ نے رواں برس مارچ میں پارلیمان سے خطاب میں کہا تھا کہ 45 برس تک فل ٹائم کام کرنے والے قریب چھ اعشاریہ تین ملین افراد کی متوقع پینشن گیارہ سو یورو ہو گی۔
جرمن ادارے بیرٹلزمان شٹفٹنگ تھنک ٹیک کا کہنا ہے کہ سن 2036 تک جرمنی میں ہر پانچ میں سے ایک پینشنر غریب ہو گا جب کہ آگے چل کر بے روزگار افراد کے لیے پینشن کی عمر انتہائی غربت کی عمر ہو جائے گی۔
حل کیا ہے؟
جرمنی میں فری مارکیٹ کی حامی فری لبرل فری ڈیموکریٹک پارٹی حال ہیں میں دوبارہ اپنے قدم مضبوط کر رہی ہے۔ اس جماعت کا کہنا ہے کہ لوگ پرائیویٹ پینشن پلان حاصل کریں۔
ایف ڈی پی کے سربراہ کرسٹیان لنڈنر کے مطابق حالیہ کچھ برسوں میں بہت سے افراد اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتے دکھائی دیے ہیں کیوں کہ لوگ جانتے ہیں کہ وہ سرکاری پینشن پر بھروسا نہیں کر سکتا۔
جرمنی میں اس وقت ریٹائرمنٹ کی عمر 65 برس ہے جبکہ سن 2029 میں یہ 67 برس ہو جائے گی، تاہم اب نئی تجویز یہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو 69 برس کر دیا جائے۔ اس منصوبہ پر جرمنی میں شدید بحث جاری ہے۔ جب کہ نوجوان ووٹروں میں بھی یہ مدعا زیربحث ہے۔
کاتھلین شوزٹر (ع ت، ع ح)