پینٹاگون قیدیوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک کی تصاویر شائع کرے گا
28 جنوری 2016انسانی حقوق کی ایک امریکی تنظیم کی طرف سے بدھ کو ایک بیان میں یہ انکشاف کیا گیا ہے۔ یہ اقدام امریکی پینٹاگون اور امریکا کی ’امیریکن سول لبرٹیز یونین‘ یا ACLU کے مابین ایک قانونی جنگ کے نتیجے میں کیا جا رہا ہے۔ امریکا کی سول لبرٹیز یونین کی طرف سے اس سلسلے میں 2014ء میں آزادیء معلومات کے تحت ایک قانونی مقدمہ دائر کیا گیا تھا جس کے تحت یونین اُن 2000 تصاویر کی اشاعت چاہتی تھی جن میں امریکی حراستی کیمپوں میں قیدیوں کے ساتھ ناروا سلوک دیکھا جا سکتا ہے۔
ACLU کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پینٹاگون نے مذکورہ تصاویر میں سے 198 جمعہ 29 جنوری تک آن لائن شائع کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ گرچہ اوباما انتظامیہ 2009ء میں ہی کہہ چُکی تھی کہ وہ یہ تصاویر شائع کر دی گی تاہم کانگریس نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ میں چھوٹ کے طور پر ایک بل پاس کر کے حکومت کو اس بات کی اجازت دے دی کہ اگر امریکی وزیر دفاع ان تصاویر کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار سمجھتے ہیں تو پھر اس کی اشاعت کے فیصلے پر عمل درآمد روکا جا سکتا ہے۔
واشنگٹن حکومت عراق اور افغانستان میں امریکی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی مذکورہ تصاویر کی اشاعت کی مخالفت اس لیے کر رہی ہے کہ اسے ڈر ہے کہ ان کے منظر عام پر آنے سے امریکی افواج اور اس کے اہلکاروں کے خلاف نہایت پُر تشدد رد عمل سامنے آ سکتا ہے اور یہ غیر ملکوں میں امریکی فوجی اہلکاروں کی سلامتی کو شدید خطرات سے دو چار کر سکتا ہے۔
مارچ 2015ء میں ایک امریکی جج نے حکومت کو ان تصاویر کی اشاعت کا حکم دیا تھا تاہم پینٹاگون کی طرف سے اس کے خلاف اپیل دائرکردی گئی تھی۔
گزشتہ برس نومبر میں پینٹاگون کے چیف ایشٹن کارٹر نے 198 خاکوں کی اشاعت کو نیشنل سکیورٹی کے لیے شدید خطرات کا باعث قرار دیتے ہوئے اس فیصلے کی دوبارہ تصدیق سے انکار کر دیا تھا۔
امریکا کی ’سول لبرٹیز یونین‘ ACLU نے کہا ہے کہ وہ قریب 1800 تصاویر کی اشاعت کی کوششیں جاری رکھے گی۔ اس گروپ کے تازہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’’ہم اب بھی باقی ماندہ خفیہ خاکوں کی اشاعت پر زور دے رہے ہیں۔‘‘
امریکی فوجی عراق کی ابوغریب جیل میں قیدیوں کے ساتھ اذیت رسانی اور انہیں جنسی ذلت کا شکار بنانے کے گھناؤنے اعمال میں شریک رہی ہیں۔ یہ بات ہے 2004ء کی جب امریکی فوج کے زیر نگرانی یہ جیل قائم تھی۔ اس بارے میں خود امریکی میڈیا میں امریکی فوجیوں کے ہاتھوں قیدیوں کے استحصال اور اُنہیں جسمانی اور جنسی زیادتیوں کا شکار بنانے کے اسکینڈلز سامنے آئے تھے۔
2004ء اور 2006ء کے درمیان 11 امریکی فوجیوں کا کورٹ مارشل ہوا اور انہیں مجرم قرار دیا گیا تھا۔ ان میں لنڈی انگلینڈ بھی شامل تھا جسے ایک تصویر میں برہنہ قیدیوں کے پیچھے کھڑا دیکھا گیا تھا اور اس امریکی فوجی کے چہرے پر فاتحانہ مُسکراہٹ تھی۔