پین کلر حاملہ خواتین کے لئے خطرناک
12 نومبر 2010ڈنمارک کے طبی محققین نے اس بارے میں ریسرچ کے بعد کہا ہے کہ جو عورتیں حمل کے دوران درد کش ادویات طویل عرصے تک لیتی رہتی ہیں، اُن کے ہاں پیدا ہونے والے لڑکوں کے ٹیسٹیکلز میں نقائص پیدا ہو سکتے ہیں، جس سے بعدازاں مردانہ بانجھ پن یا تولیدی صلاحیت کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ زندگی کے بعد کے مرحلے میں مردوں میں کینسر یا سرطان کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
عام طور پر ڈاکٹرز خواتین کو دوران حمل یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ درد کش ادویات سے ممکنہ طور پر پرہیز کریں۔ یورپی سوسائٹی برائے ہیومن ریپروڈکشن اینڈ ایمبرائیلوجی کی طرف سے شائع ہونے والے آکسفورڈ جرنل آف ہیومن ریپروڈکشن میں ماہرین نے اس ریسرچ پر فوری طور سے مزید کام کرنے کو ترجیح قرار دیا ہے۔ ماہرین نے تاہم کہا ہے کہ حمل کے دوران کبھی کبھار سردرد دور کرنے کے لئے پین کلر کا استعمال نقصان دہ نہیں ہوتا۔
اس تازہ ریسرچ میں ڈنمارک، فن لینڈ اور فرانس میں دو ہزار سے زائد حاملہ خواتین اور اُن کے نوزائیدہ بچوں پر تحقیق کی گئی۔ اس سے پتا چلا کہ ایسی خواتین جو مسلسل درد کش دوا پیرا سیٹامول یا بروفین لیتی رہتی ہیں اُن کے نوزائیدہ لڑکوں کے اندر ٹیسٹیکلز یا تناسُلی غُدودکا نقص اُن خواتین کے نومولود لڑکوں کے مقابلے میں سات گنا زیادہ ہوتا ہے، جو دوران حمل پین کلرز سے پرہیز کرتی ہیں۔
اس تحقیق سے ایک اور نہایت اہم انکشاف ہوا ہے، وہ یہ کہ حمل کے 14 سے 27 ویں ہفتے تک کا عرصہ حساس ترین ہوتا ہے اور اس دوران پین کلر کے استعمال سے بچے میں ان موذی بیماریوں کے جنم لینے کے امکانات دگنے ہوجاتے ہیں۔ اس سلسلے میں اسپرین اور بروفین سے یہ امکانات چار گنا زیادہ ہوتے ہیں۔
دوران حمل پین کلر کے متواتر دو ہفتے کے استعمال سے بھی نومولود لڑکوں میں ٹیسٹیکلز میں نقص اور بعدازاں مردانہ بانجھ پن کا خدشہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ پین کلرز شکم مادر میں بڑھنے والے بچے کے مادہ ہارمونز کے قدرتی توازن کو بگاڑ دیتی ہیں اور اس طرح اُس کی نشوونما معمول کے مطابق نہیں ہوتی۔ اس مفروضے کی بنیاد چوہوں پر کی جانے والی ریسرچ ہے۔
برطانیہ کی شیفیلڈ یونیورسٹی کے ایک سینیئر لیکچرر اورماہر جنسی امراض ڈاکٹر ایلن پیسی کے مطابق طبی ماہرین ایک عرصے سے اُن کیمیائی مادوں کے اثرات پر ریسرچ کر رہے ہیں جو حاملہ خواتین کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں، خاص طور سے اُن کے ہاں جنم لینے والے لڑکوں کے اندر ٹیسٹیکلز کے بعض مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس سلسلے ابھی نسبتاً کم ٹھوس شواہد ملے ہیں اور اس اہم طبی مسئلے پر ابھی بہت زیادہ ریسرچ درکار ہے۔
اُدھر لندن کی سینٹ جارجز یونیورسٹی کے College of Obstetricians and Gynaelogists سے منسلک ڈاکٹر ’ براسکی تھیلاگناتھن‘ نے کہا ہے کہ ڈنمارک کے محققین کی اس ریسرچ سے کوئی حتمی نتیجہ اخذ کرنے میں محتاط رہنا ہوگا۔ اُن کے مطابق عین ممکن ہے کہ دوران حمل پین کلر لینے والی خواتین کسی وائرل انفیکشن کا شکار رہی ہوں اور اُن کے ہاں جنم لینے والے لڑکوں میں ٹیسٹیکلز کے مسائل کی اصل وجہ یہ انفیکشن بنی ہو۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: ندیم گِل