1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیپلز پارٹی وفاقی حکومت سے ناراض کیوں ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
6 مارچ 2023

پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے اس بات کا اشارہ دینا کہ اگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کئے تو وفاقی وزارتوں سے استعفیٰ دے سکتے ہیں، ملک کے کئی حلقوں میں موضوع بحث بن گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4OJul
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری، جس انداز میں کرائی جا رہی ہے، انہیں اور ان کی پارٹی کو اس پر تحفظات ہیں
بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈیجیٹل مردم شماری، جس انداز میں کرائی جا رہی ہے، انہیں اور ان کی پارٹی کو اس پر تحفظات ہیںتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت انتہائی معمولی اکثریت سے ملک پر حکمرانی کر رہی ہے اور اگر اس نے پیپلزپارٹی کے مطالبات پورے نہیں کیے، تو وہ اقتدار میں رہ نہیں سکے گی۔

کچھ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نون بہت مشکل صورتحال میں ہے کیونکہ اگر وہ پیپلزپارٹی کے مطالبات کو مانتی ہے تو ایم کیو ایم ناراض ہو جائے گی اور ان کے مطالبات کو مانتے ہوئے ڈیجیٹل مردم شماری اسی انداز میں جاری رکھتی ہے تو پھر پیپلز پارٹی ناراض ہو سکتی ہے۔

واضح رہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری، جس انداز میں کرائی جا رہی ہے، انہیں اور ان کی پارٹی کو اس پر تحفظات ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت سے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ سیلاب زدگان کے حوالے سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کرتی تو ان کی پارٹی کے لئے وزارتوں میں رہنا مشکل ہو جائے گا۔

 پیپلز پارٹی کے تحفظات کیا ہیں؟

پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ وہ وفاقی حکومت کا حصہ ہے لیکن اس کے باوجود اسے حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے اور اس پر تحفظات بھی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ صابر علی بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پارٹی چیئرمین نے اپنے تحفظات سے وفاقی حکومت کو آگاہ کر دیا ہے اور اب یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تحفظات پر غور کرے اور اس کا کوئی حل نکالے۔‘‘

صابر علی بلوچ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ان تحفظات کا اظہار کر کے حکومت کی توجہ سیلاب زدگان کی طرف دلائی ہے
صابر علی بلوچ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ان تحفظات کا اظہار کر کے حکومت کی توجہ سیلاب زدگان کی طرف دلائی ہےتصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

صابر علی بلوچ کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے ان تحفظات کا اظہار کر کے حکومت کی توجہ سیلاب زدگان کی طرف دلائی ہے، جو بہت ساری مشکلات کا شکار ہیں، ’’وفاقی حکومت نے، جو مالی مدد کا وعدہ کیا تھا، ہمیں امید ہے کہ وہ اس وعدے کو پورا کرے گی۔‘‘

حکومت 'ٹوٹ پھوٹ‘ رہی ہے

پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ پی پی پی کو ن لیگ کی جی ایچ کیو نواز پالیسی قابل قبول نہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور سابق مشیر برائے فوڈز سکیورٹی جمشید اقبال چیمہ نے ڈبلیو کو بتایا، ''موجودہ حکومت کی پالیسیاں اسٹیبلشمنٹ نواز ہیں، جب کہ ان کی عوام دشمن پالیسیاں کی کوئی بھی ملکیت لینے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ مریم نواز بھی اس ملکیت کے لیے تیار نہیں۔ پی پی پی کو احساس ہے کہ حکومت کی ان پالیسیوں کی حمایت کی وجہ سے اس کا ووٹ بینک کم ہو گا، اس لیے وہ انتخابات چاہتی ہے۔‘‘

پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کا ذمہ دار کون؟

جمشید چیمہ کے مطابق پی پی پی کو یہ بھی لگتا ہے کہ نون لیگ غیر آئینی اقدامات کا سہارا لے سکتی ہے، ''آئینی معاملہ تو یہ ہے کہ پنجاب اور کے پی میں بغیر رکاوٹ کے انتخابات ہونے چاہیئں تھے لیکن ن لیگ نے اس کو غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی، جس کی پی پی حمایت نہیں کر سکتی۔‘‘

بلاول کے بیان کی 'کوئی خاص حیثیت‘ نہیں

 جہاں کچھ حلقے بلاول کے اس بیان کو بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں، وہی کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ پیپلزپارٹی میں اصل طاقت آصف علی زرداری کے پاس ہے اور آصف علی زرداری جب تک حکومت کے ساتھ ہیں اسے کوئی نہیں ہلا سکتا۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی حکومت کو نہیں چھوڑے گی۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بلاول بھٹو زرداری اپنے طور پر کچھ بھی کہتے رہیں لیکن پیپلزپارٹی میں آصف علی زرداری کے پاس طاقت ہے اور وہ اپنے حالیہ انٹرویوز میں اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ حکومت کو نہیں چھوڑیں گے۔ تو میرے خیال میں بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان کی کوئی زیادہ سیاسی حیثیت نہیں ہے۔‘‘

سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری کی مخالفت کیوں؟

سندھ میں ڈیجیٹل مردم شماری کے خلاف مزاحمت جاری ہے۔ جیسے ہی یہ عمل شروع ہوا سندھ کے مختلف علاقوں میں اس کے خلاف جلسے، جلوس اور احتجاج ہونے لگے۔ لاڑکانہ سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ذوالفقار راجپر کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کے حوالے سے سندھ میں بہت غصہ ہے اور پیپلزپارٹی پر دباؤ ہے کہ وہ اس مسئلہ کے حوالے سے سندھ کے مفادات کا تحفظ کرے۔

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس پر پہلا نکتہ یہ ہے کہ عموما مردم شماری دس سال میں ہوتی ہے اور یہ پانچ سال میں شروع ہو گئی ہے۔ دوسرا اس پر اعتراض یہ ہے کہ سندھ میں ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے، جنہیں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے حوالے سے خاطر خواہ معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی یہاں شرح خواندگی اتنی بلند ہے کہ عام آدمی آسانی سے ڈیجیٹل فارم بھر سکے۔‘‘

ذوالفقار راجپر کے مطابق ان عوامل کی وجہ سے سندھ میں کئی حلقوں کو یہ خدشہ ہے کہ سندھیوں کی آبادی کو بہت کم کر کے دکھایا جائے گا،''جب عوام کی اکثریت ڈیجیٹل مردم شماری میں حصہ نہیں لے پائے گی اور ایسے لوگ بھی اس مردم شماری میں حصہ لیں گے، جو یہاں پر آباد کار کے طور پر رہ رہے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سندھیوں کی آبادی کم دکھائی جائے گی اور شہری علاقوں کے لوگوں کی آبادی کو زیادہ دکھایا جائے گا۔‘‘

 نون لیگ مشکل میں ہے

ذوالفقار راجپر کا کہنا ہے  کہ نون لیگ اس صورتحال میں مشکل سے دوچار ہے، ''اگر وہ پیپلزپارٹی کے مطالبے کو مانتے ہوئے ڈیجیٹل مردم شماری کو روکتے ہیں یا اس میں وہ تبدیلیاں کرتے ہیں، جس کا مطالبہ پیپلز پارٹی کر رہی ہیں، تو متحدہ ناراض ہو جائے گی اور یہ حکومت گر جائے گی۔ لیکن اگر شہباز شریف کی حکومت متحدہ کے مطالبات مانتی ہے، تو پھر ان کی بڑی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ناراض ہو سکتی ہے۔ تو نواز لیگ ہر طرف سے مشکل میں ہے۔‘‘