1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیچھے دیکھو پیچھے!

انعم صبا
24 جون 2019

ایک روایت کے مطابق سکندر اعظم نے ہندوستان کی مہم جوئی کے لیے اپنے لاؤ لشکر سمیت خطہ پوٹھوہار کے جنوب میں موجودہ ضلع جہلم سے میانوالی کے بیچ ایک نیم پہاڑی مقام سے گزرتے ہوئے کچھ دیر پڑاؤ ڈالا تھا۔

https://p.dw.com/p/3Kyim
Anum Saba
تصویر: privat

اس دوران گھوڑوں کو گھاس چرنے کے لیے چھوڑا گیا، تو انہوں نے پتھروں کوچاٹنا شروع کر دیا۔ تجسس کے مارے کسی لشکری نے بھی پتھر چاٹ ڈالا۔ يوں محض اتفاقاً نمک دریافت ہو گیا ہے۔

اگر دو ہزار تین سو اڑتیس برس قبل کوئی بھلا مانس سکندر کے کان میں سرگوشی کر کے اسے یہ باورکرا دیتا کہ بھیا! تم کہاں نگری نگری مارے مارے پھرتے ہو، چشم بد دور ہمارے گھوڑوں نے سونے چاندی، ہیرے جواہرات سے بڑھ کر ايک قیمتی پتھرکھوج نکالا ہے تو شاید سکندر بھی جہاں گیری کے خیال سے کنارہ کش ہو کر، جنگ و جدل سے تائب ہو کر ہمیشہ کے لیے اسی نمکین ٹیلے پر براجمان ہو جاتا۔

پھر اقتصادیات کے مضمون پر تھوڑی توجہ، جمع تفریق اور ضرب تقسیم کے نتیجے میں یونان ہی کیا شاید دنیا بھر کے معاشی مسائل کا حل اسی مقام سے نکل آتا۔ بس شومئی قسمت اس وقت نہ سبز باغ کی اصطلاح وجود میں آئی تھی نہ ٹرک ایجاد ہوا تھا کہ جس کی بتی کے پیچھے لگانے کا کوئی حربہ کام آتا۔ کم ازکم انٹرنیٹ ہی ہوتا تو چند ماہرین فیس بک اور مشیران ٹوئٹر اپنے سمارٹ فون کی اسکرین پر نئے منصوبےکی لائکس اور ٹرینڈ دکھا کر اسے کوہستان نمک میں روک ہی لیتے۔

لیکن یہ امر اب قطعی طور پر حیران کن نہیں رہا کہ معاشی زبوں حالی سے دوچار پاکستانی عوام کی قابل ذکر اکثریت کسی معجزے کی امید میں ایسی ہر خبر پر من وعن یقین کر لیتی ہے جس کے نتیجے میں اسے کسی ممکنہ آسودگی کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہو۔ تنگ دستی کی سرنگ کے دہانے پر یہ روشنی کبھی سی پیک کی صورت میں دل لبھاتی ہے تو کبھی سینڈک اور ریکو ڈک میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر کی دریافت کے اعلانات کی شکل میں کانوں میں رس گھولتی ہے۔ کبھی بے صبری بڑھنے لگے تو چنیوٹ میں دریافت کردہ سونے کا ذخیرہ راحت بخش ثابت ہوتا ہے یا پھر تھر کے کوئلے سے جذبوں کی حدت کا سامان ہونے لگتا ہے۔

کسی خوشخبری کے منتظر وجود ساحل پہ کھڑے تیل اورگیس کے برآمد نہ ہونے پر افسردہ ہو کر بیٹھنے کو ہوتے ہیں کہ اچانک کوئی آواز لگاتا ہے: پیچھے دیکھو پیچھے۔ تمہارے سارے مسائل کا چھپڑ پھاڑ حل تو کھیوڑہ والی نمک کی کان میں پوشیدہ ہے۔ ایسے میں جذباتی، سیانے، نمانے سب سوشل میڈیا پر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو سمجھانے لگتے ہیں کہ صاحب! یہ کوئی عام سوڈیم کلورائیڈ یا ہیلائیٹ نمک نہیں اس میں توخیر سے میگنیشیم، پوٹاشیم، کیلشیم سمیت بیسیوں دیگر نایاب اور مفید معدنیات کی موجودگی کی بنا پر ہی ساری دنیا دیدہ و دل فرش راہ کیے بیٹھی ہے۔ یہی نہیں، پھر اپنے اپنے تئیں انگلیوں پر ہی موٹا موٹا حساب کتاب لگا کے جھٹ بتاتے ہیں کہ سارا خرچہ نکال کے بھی اربوں، کھربوں کا منافع ہے اور جناب وہ بھی ڈالروں میں۔ پاکستان کے سارے قرضے تو اکیلا ہمارا کھیوڑہ کا شہر ادا کر سکتا ہے۔

اب جلتی پہ تیل یا سونے پہ سہاگہ جو مرضی کہیں، کسی گوگلی دانشورکو اچانک بھنک پڑتی ہے کہ ہمارا یہ انمول سرمایہ ہری سنگھ نلوا اور مہاراجہ گلاب سنگھ کی ملی بھگت کے بعد صدیوں سے چپکے چپکے پڑوسی ملک میں جا رہا ہے جہاں اس نمک کو صرف خوشنما پیکنگ کی زحمت کے بعد یورپ، امریکا اور کینیڈا برآمد کر کے بھارتی حکومت دونوں ہاتھوں سے دولت سمیٹنے اور تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے تو ایک سو چھپن روپے چالیس پیسے میں ایک ڈالر خریدتے ہر محب الوطن کی آنکھ بھر آنا اور اس نقصان دہ برآمد پر دلی صدمہ بلاشبہ فطری ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا کہ کینیڈا میں انٹاریو کی سفٹو دنیا کی سب سے بڑی نمک کی کان ہے اور یورپ میں پولینڈ، جرمنی اور رومانیہ میں بھی معدنی نمک کی بڑی کانوں سے جاری کثیر پیداوار ہمارے خوش خصال گلابی نمک کی خاطر خواہ عالمی برآمد کی راہ میں حائل رہے گی۔    

اس تمام تر غیر منطقی استدلال اور امیدوں کی نازک ڈور سے بندھی مایوس کن صورت حال کے پیچھے حقیقت پسندانہ رویے کے برعکس ایک نفسیاتی بے چینی اور وہ بے یقینی ہے جو آئے روز مہنگائی میں مسلسل اضافے کی بنا پر ہر ایک کی جان کو آئی ہے۔ ایک عام فرد فن اقتصاد کے اسرارو رموز نہیں سمجھتا لیکن جب اسے اپنی جیب ٹٹولتے ہوئے زائد رقم نکال کر دکاندارکی ہتھیلی پر رکھنا پڑتی ہے توآٹے دال کے بھاو میں اتار چڑھاو اس کی سمجھ میں بہ خوبی آ جاتا ہے۔

 ایسے میں گردوپیش سے کانوں میں پڑنے والے تجزیاتی تبصرے اور آنکھوں کے سامنے رقص کرتے اعداد و شمار تسلی تو دے سکتے ہیں، اس کے درد غربت کا درماں نہیں بن پاتے۔ ایک ٹھوس اور جامع اقتصادی حکمت عملی اور دور رس منصوبہ سازی کی عدم موجودگی میں اگر کوئی سب سے زیادہ بے سمت رہتا ہے تو شاید وہ عوام ہیں۔ وہی عوام جو ایک بار اپنے اپنے قائدین کی عقیدتوں اور محبتوں میں فنا ہو جائیں تو ہمیشہ وہی دیکھنے پر راضی رہتے ہیں جو انہیں دکھایا جائے۔ جو اپنی بدحالی کو قسمت کا لکھا یا مہنگائی کو آخری قربانی سمجھتے ہوئے اپنے بچوں کی تقدیر بدلنے کےمنتظر ہیں۔ جو نجانے کب سے دائروں میں گھوم کر رانجھا رانجھا کرتے اس قدیم ضرب المثل کی عملی تصویر بنے خود نمک نمک ہوئے پھرتے ہیں کہ؛

چشم بہ تو اُفتاد و وجودم ہمہ حک شد
ہر چیز کہ درکان نمک رفت نمک شد

میری نگاہ تجھ پر پڑی تو میرا وجود بالکل مٹ گیا کہ جو چیز نمک کی کان میں جا پہنچے وە خود بھی نمک ہو جاتی ہے۔

بھلا آنکھوں سےدھول جھاڑے بغیرکوئی آگے یا پیچھےدیکھنے کے قابل رہتا ہے؟

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔