1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پی ٹی آئی پر پابندی سے جمہوریت کمزور ہو گی‘‘

22 جولائی 2024

حکومت پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کا سوچ رہی ہے۔ ماہرین سیاسیات کے مطابق نظام جمہوری ہو تو اس کی خامیاں جمہوریت سے ہی دور کی جا سکتی ہیں۔ کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے سے جمہوری نظام مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4iZo0
Ismat Jabeen
تصویر: Privat

کوئی بھی جمہوری نظام اپنی روح میں ''عوام کی، عوام کے ذریعے، عوام کے لیے حکومت‘‘ ہوتا ہے۔ کسی بھی جمہوری سماج میں اصل طاقت عوام کی ہوتی ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کریں، اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ مگر ایسی کوئی استثنائی صورت حال کب پیدا ہوتی ہے کہ کسی سیاسی پارٹی کو عوامی تائید کی حامل ہونے کے باوجود ممنوع اور غیر قانونی قرار دے دیا جائے؟

ایسا شاذ و نادر ہی لیکن مغربی جمہوری معاشروں میں صرف اسی وقت سوچا جا سکتا ہے جب کوئی سیاسی جماعت آئین اور بنیادی سیاسی اور اخلاقی اقدار کی خلاف ورزی کرتی پائی جائے اور ریاست کے لیے خطرہ بن جائے۔ تب ایسے فیصلے قطعی غیر جانبدار ملکی عدالتیں شواہد کی بنیاد پر کرتی ہیں۔ مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ کسی بھی جمہوریت میں کسی بھی سیاسی جماعت پر پابندی اگر ناگزیر ہو بھی جائے، تو وہ اس نظام کی حفاظت کرے نہ کہ اس کی عملی نفی۔

پاکستان میں پچھلے دنوں ایسا عشروں بعد پہلی بار ہوا کہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے اعلان کیا کہ وہ وسیع تر عوامی تائید و حمایت والی اور اس وقت اپوزیشن کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی مخلوط حکومت کے وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ سے رجوع کرے گی، تا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کو قانوناﹰ ممنوع قرار دلوایا جا سکے اور ساتھ ہی عمران خان اور ملک کے سابق صدر عارف علوی پر غداری کے مقدمات بھی چلائے جا سکیں۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندیاں ماضی میں بھی لگائی جاتی رہی ہیں۔ 1954ء میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی پر پہلی بار پابندی لگائی گئی تھی۔ دوسری بڑی سیاسی جماعت جس پر 1971ء میں پابندی لگی تھی وہ نیشنل عوامی پارٹی تھی۔ اس کے علاوہ آج تک پاکستان میں کچھ مذہبی سیاسی جماعتوں اور فرقہ واریت اور شدت پسندی کو ہوا دینے والی تنظیموں پر بھی پابندی لگائی جا چکی ہے۔ ایسی جماعتیں اور تنظیمیں وہ نہیں تھیں جنہیں ملک گیر سطح کی قومی سیاسی پارٹیاں اور پارلیمان میں بڑی منتخب سیاسی طاقتیں قرار دیا جا سکے۔

وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی سے متعلق اعلان کی خاص بات یہ تھی کہ ایک جمہوری حکومت کے وزیر اور ایک جمہوری سیاسی رہنما نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جو ڈکٹیٹر جمہوری قوتوں کے خلاف سوچتے اور کرتے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ پاکستان میں اس وقت کون سی سیاسی جماعت اقتدار میں اور کون سی اپوزیشن میں ہے، دونوں طرح کی سیاسی جماعتوں کے مابین واحد لڑائی زیادہ سے زیادہ عوامی تائید کی ہونی چاہیے اور وہ سیاسی میدان میں لڑی جانی چاہیے۔

کسی بھی مقابلے میں حریف کو میدان میں آنے سے کوئی بھی حربہ استعمال کر کے روک دینا اور یوں بلا مقابلہ ہی خود کو فاتح تسلیم کروا لینے کی خواہش کرنا، یہ ناانصافی پر مبنی رویہ تو ہو سکتا ہے لیکن کسی ریاست کی جمہوری بقا کے لیے منصفانہ اصولی راستہ بالکل نہیں۔ اس ممکنہ پابندی کی خواہش یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ ماضی میں جو کچھ مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ مختلف ادوار میں مختلف حکمرانوں نے کیا، اس سے خود مسلم لیگ ن کے بڑوں نے بھی اپنے، دوسروں اور پاکستانی ریاست اور معاشرے کے لیے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ مظلوم کہلانے والا موقع ملنے پر خود ظالم بن جائے تو ظالم اور مظلوم میں کوئی فرق ممکن نہیں رہتا۔

بہترین جمہوریت تو زیادہ سے زیادہ شہری، شخصی، اجتماعی اور سیاسی آزادیاں دیے جانے کا نام ہے، نہ کہ کسی مقبول عوامی جماعت پر قانونا پابندی ہی لگا دی جائے۔ عمران خان کے خلاف کئی عدالتوں میں مختلف مقدمات چل رہے ہیں۔ کبھی انہیں ایک مقدمے میں سزا سنائی جاتی ہے تو کوئی دوسری عدالت وہی سزا منسوخ کر دیتی ہے۔ اس بحث سے بھی قطع نظر، اگر عمران خان کو ملکی عدالتوں میں قانوناﹰ جواب دہ بنایا جا رہا ہے، تو یہ ممکنہ حل کسی تخلیقی سیاسی ذہن کی پیداوار ہے کہ پی ٹی آئی کو بطور جماعت ہی غیر قانونی قرار دے دیا جائے؟

اس بارے میں کچھ بھی لکھتے ہوئے پاکستانی آئین کی کئی شقوں کے حوالے دیے جا سکتے ہیں، حکومت کی طرف سے عمران خان اور پی ٹی آئی پر لگائے جانے والے الزامات بھی دہرائے جا سکتے ہیں اور یہ گنتی بھی کی جا سکتی ہے کہ عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی اور پی ٹی آئی کے دیگر سرکردہ رہنماؤں کے خلاف کون کون سے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ لیکن ایسا کرنے کی شاید کوئی ضرورت نہیں۔

اس لیے کہ عطا تارڑ نے جو اعلان کیا، وہ ذاتی حیثیت میں کہی گئی بات نہیں تھی۔ وہ کابینہ کے رکن کے طور پر بات کر رہے تھے۔ ان کے بیان کی ظاہر ہے موجودہ وفاقی حکومت بھی حامی ہے۔ لیکن یہ لازم نہیں کہ موجودہ حکومت میں شامل سبھی جماعتیں پی ٹی آئی پر ممکنہ قانونی پابندی کی حامی ہوں۔ ایسا تو ہے بھی نہیں۔ پاکستان میں بہت سے اصول پسند اور جمہوریت کی حقیقی بنیادوں پر یقین رکھنے والے کئی رہنما اس ممکنہ پابندی کے خلاف ہیں۔

وزیر دفاع اور مسلم لیگ ن کے سیاست دان خواجہ آصف نے تو ابھی حال ہی میں یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ شہباز شریف حکومت میں شامل کچھ اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی پر ممکنہ پابندی کے ارادے کی مخالف ہیں اور حکومت انہیں بھی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرے گی۔

اسلام آباد میں حکومتی سیاستدانوں کے لیے یہ یاد دہانی اب بظاہر لازمی لگتی ہے کہ شیشے کے گھروں، ان میں رہنے والوں اور راستے کے پتھروں کے مابین خاص طرح کے رشتے ہوتے ہیں۔ پتھر اور شیشے کا رشتہ ہمیشہ ایک سا ہی رہتا ہے۔ البتہ مکینوں کی جگہ بدلتی رہتی ہے، آج شیشے کے گھر کے اندر کوئی اور ہے تو کل کوئی اور ہو گا۔ جو آج پتھر پھینک رہا ہے، وہی کل تک اپنے گھر پر پتھر پھینکے جانے کی شکایت کرتا نظر آتا تھا۔

ان حالات میں شیشے کے گھر کے اندر اور باہر رہنے والوں، دونوں کو ہی پتھروں کی دوستی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مزید زخمی کر دینے والی کوئی بھی شے علاج کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی۔ لیکن علاج کی ضرورت پڑے ہی کیوں؟ کیا پرہیز علاج سے بہتر نہیں ہوتا؟

بات یہ ہے کہ حکومت کوئی بھی ہو اور کسی بھی جماعت یا جماعتوں کی، وہ جس ملک اور جن عوام پر حکمرانی کرتی ہے، اسے ان کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ خاص طور پر اس وقت جب عوام بجلی اور گیس کے بلوں میں خود کشیوں پر مجبور کر دینے والے اضافے سے تنگ آ چکے ہوں، پیٹرول کی قیمتیں آنکھیں پھاڑ دینے والی ہوں اور مہنگائی عوام کی کمر توڑ چکی ہو۔ تب عوام کے مسائل حل نہ کرنا جرم بن جاتا ہے۔

پاکستانی عوام کے تکلیف دہ مسائل کا تسلی بخش حل تو ملکی حکومت کو ہی نکالنا ہو گا، نہ کہ کسی دوسرے ملک کے حکمرانوں کو۔ انصاف یہ ہے کہ جس کا جو کام ہو، وہی کرے اور چیزیں ان کے اصل مقام پر ہی رکھی جائیں۔

انتقام صرف انتقام ہی کو جنم دیتا ہے۔ انتقامی جذبوں اور اقدامات کے ساتھ دیرپا اور قومی مفادات کی محافظ کوئی منزل حاصل نہیں کی جا سکتی۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔