1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی کارروائیاں، عالمی اداروں کے تحفظات

عبدالستار، اسلام آباد
24 اگست 2022

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ہونے والی حکومتی کارروائیوں پر کئی عالمی شخصیات اپنے تحفظات ظاہر کر چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کا بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

https://p.dw.com/p/4FyqA
Pakistan Imran Khan, Rede in Lahore
حال ہی میں عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا ہےتصویر: K.M. Chaudary/AP Photo/picture alliance

سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان خطے میں ایک اہم جغرائیائی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے یہاں پر ہونے والی تبدیلیوں یا حالات پر دنیا کے کئی ممالک اور بین الاقوامی ادارے نظر رکھتے ہیں۔ حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کی سیاسی صورت حال کو اس کا اندرونی معاملہ قرار دیا تھا۔ تاہم کئی ناقدین کے خیال میں اقوام متحدہ نے اس اندرونی معاملے پر تبصرہ کیا ہے، جو باعث تشویش اور ملکی معاملات میں مداخلت ہے۔

سیکریٹری جنرل نے کیا کہا؟

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان نے پیر کو کہا کہ سیکریٹری جنرل نے عمران خان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج ہونے کے بعد اس بات پر زور دیا ہے کہ غیر جانبدارانہ قانونی طریقہ کار کو اپنایا جائے۔  ترجمان کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل ان الزامات سے آگاہ ہیں، جو عمران خان پر لگائے گئے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سیکریٹری جنرل نے کشیدگی کو کم کرنے پر زور دیا ہے اور اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ انسانی حقوق، قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں کے اصولوں کا احترام کیا جائے۔

یہ بیان غیر معمولی ہے

 اقوام متحدہ کے لئے پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا یہ بیان غیرمعمولی بھی ہے اور حیرت انگیز بھی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' عموماﹰ اقوام متحدہ کے عہدے داران کسی ایسے ملک کے حوالے سے بیانات دیتے ہیں، جہاں خدانخواستہ خانہ جنگی ہو رہی ہو یا جنگی حالات ہوں۔ لیکن پاکستان میں ایسے حالات نہیں ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی ادارہ پاکستان میں انسانی حقوق اور سیاسی افراتفری کو قریب سے دیکھ رہا ہے اور اسے اس پر تشویش بھی ہے۔ اس صورت حال کی وجہ سے پاکستان کی دنیا میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔‘‘

’یہ صورت حال ہماری اپنی پیدا کردہ ہے‘

شمشاد احمد کہنا کا مذید کہنا تھا، ''موجودہ صورت حال کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ملک میں تقریبا تمام چیزیں معمول کے مطابق چل رہیں تھیں۔ کورونا کے باوجود معاشی ترقی ہو رہی تھی۔ فلاحی کام چل رہے تھے اور ملک میں سیاسی استحکام تھا پھر کچھ طاقتور عناصر نے اپوزیشن کی حمایت کر دی، جس سے ملک سیاسی بے یقینی کا شکار ہو گیا۔ آج موجودہ صورتحال پر نہ صرف ملک میں کئی حلقوں کو تشویش ہے بلکہ بین الاقوامی ادارے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔‘‘

’بیان پاکستان کے معاملات میں مداخلت‘

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اقوام متحدہ کو کوئی حق نہیں کہ وہ پاکستان کی اندرونی معاملات میں مداخلت کرے کیونکہ سیاسی معاملات ملک کے اندرونی معاملات ہوتے ہیں اور ان میں کوئی دوسرا ملک یا بین الاقوامی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا۔

پی ٹی آئی زیر عتاب: پاکستان میں بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام

 اسلام آباد کی پرسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو اس پر احتجاج کرنا چاہیے، '' پاکستان میں کوئی خانہ جنگی کی کیفیت نہیں ہے اور  نہ ہی یہاں پر کوئی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ملک حالت جنگ میں ہے اور نہ ہی بنیادی انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر کوئی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ خصوصاﹰ پی ٹی آئی کے حوالے سے قانونی طریقہ اختیار کیا گیا ہے۔ عمران خان ملک کے طول و عرض پر جلسے بھی کر رہے ہیں اور ریلیاں بھی کر رہے ہیں۔ تو اس بیان کی کوئی توجیح نہیں دی جا سکتی۔‘‘

پی ٹی آئی کی لابنگ

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے اوورسیز یونٹس بہت طاقتور ہیں اور انہوں نے مبینہ طور پر امریکی سیاستدانوں اور اقوام متحدہ کے اداروں کو خطوط لکھے ہیں، جن کی وجہ سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کا بیان سامنے آیا ہے۔

شہباز گل کی گرفتاری: ممکنہ سیاسی نتائج کیا کیا، بحث جاری

امان میمن اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لابنگ کے طریقے بہت مضبوط ہیں، ''اس کے علاوہ ملک میں بھی ایسی شخصیات ہیں، جن کے مراسم بین الاقوامی اداروں اور شخصیات سے اچھے ہیں۔ مثال کے طور پر شیریں مزاری پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن پر مسلسل بول رہی ہیں اور ان کی بین الاقوامی سطح پر بھی ایک پہچان ہے۔ پی ٹی آئی بین الاقوامی سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ متحرک سیاسی جماعت ہے، تو پی ٹی آئی کے کارکنان نے بھی بین الاقوامی اداروں کو لکھا ہو گا، جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر یہ بیان سامنا آیا۔‘‘