پی ٹی آئی کے خلاف کريک ڈاؤن، مبصرين کيا کہتے ہيں؟
27 مئی 2023سياسی مبصرين اور تجزيہ کاروں کی رائے ميں فوجی عدالتوں، ذرائع ابلاغ کو ڈرانے دھمکانے کی حکمت عملی اور وسيع پيمانے پر گرفتاريوں کے ذريعے پاکستان کے طاقت ور حلقے اور برسراقتدار قوتيں انتخابات سے قبل عمران خان کی مقبوليت کم کرنے کی کوششوں ميں ہيں۔
ای سی ایل میں نام ڈالنے پر حکومت کا مشکور ہوں، عمران خان
تحریک انصاف کی گرفتار خواتین کس حال میں ہیں؟
پاکستان میں سیاسی بے یقینی اور خوف کے ماحول میں عوام بے بس
حاليہ پيش رفت پر ايک نظر
اسٹيبلشمنٹ اور موجودہ حکومت کا سابق وزير اعظم عمران خان اور ان کی سياسی جماعت پاکستان تحريک انصاف (پی ٹی آئی) کے ساتھ ٹکراؤ لگ بھگ ايک سال سے جاری ہے۔ رواں ماہ عمران خان کی عارضی حراست جن مظاہروں کا سبب بنی، ان کو حکومت 'رياست مخالف‘ قرار ديتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور کارکن الزام لگاتے ہيں کہ عمران خان کی حکومت گرانے ميں مبینہ طور پر فوجی اسٹيبلشمنٹ کا بھی کردار تھا اور اسی لیے ان ميں کافی غم و غصہ پايا جاتا ہے۔
دوسری جانب حکومت نے عسکری املاک کو نقصان پہنچانے والے درجنوں ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی کے ليے فوجی عدالتوں کا جو راستہ چنا ہے، اس کی ملکی اور بين الاقوامی سطح پر مذمت جاری ہے۔ دريں اثنا پی ٹی آئی سے وابستہ وکلاء، صحافیوں اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ انہيں جس طرح ڈرايا دھمکايا جا رہا ہے اور جیسے ہتھکنڈے استعمال کيے جا رہے ہيں، ان کے پيچھے بھی مبینہ طور پر فوجی اسٹيبلشمنٹ ہی ہے۔
بين الاقوامی تنظيموں اور تجزيہ کاروں کی رائے
سياسی تجزيہ کار حسن عسکری کا ماننا ہے کہ عمران خان کو واضح پيغام ديا جا رہا ہے کہ وہ فوجی اسٹيبلشمنٹ سے لڑ نہيں سکتے۔ خبر رساں ادارے اے ايف پی سے بات چيت ميں انہوں نے کہا، ''جماعت کے لوگوں کو دباؤ ڈال کر توڑا جا رہا ہے۔‘‘ فرانسيسی نیوز ايجنسی اے ايف پی نے اس معاملے پر فوج کا رد عمل جاننے کے ليے جب رابطہ کيا تو کوئی جواب موصول نہ ہوا۔
ايمنسٹی انٹرنيشنل کے مطابق پارٹی سے وابستہ کئی رہنماؤں کی حراست کے تناظر ميں اب حاميوں ميں خوف پايا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم اس تنظیم کے مطابق انسداد دہشت گردی کے کافی غير واضح قوانين کو بھی بروئے کار لايا جا رہا ہے۔
اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر لاہور میں ايک گھريلو خاتون نے اے ایف پی کو بتايا کہ ان کے بيٹے کو پر امن احتجاج کرنے پر گرفتار کيا گيا اور تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ ان کا مزيد کہنا تھا، ''اسے نامعلوم نمبروں سے کاليں موصول ہو رہی ہيں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کی نگرانی جاری ہے۔ وہ اب گھر سے باہر نہيں نکل رہا۔‘‘
انگريزی روزنامہ 'ڈان‘ کے ایک اداريے ميں صورت حال کی مندرجہ ذيل الفاظ ميں عکاسی کی گئی ہے، ''ايک جانی پہچانی کہانی۔ ايک سياسی جماعت سمجھتی ہے کہ وہ ملک کی طاقت ور فوجی اسٹيبلشمنٹ سے ٹکرا سکتی ہے۔ مگر سرخ لکير پار ہوتے ہی، خود کو ايک بے رحم، يکطرفہ جنگ کی صورتحال ميں پاتی ہے۔ اس سے بچنے کا واحد راستہ، وہی کيا جائے جس کی ان سے خواہش کی جائے۔‘‘
کراچی ميں کئی صحافيوں نے اے ايف پی کو بتايا کہ انہيں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے عمران خان کی ساکھ متاثر کرنے والی پريس بريفنگز کی ويڈيوز موصول ہو رہی ہيں۔ ايک رپورٹر نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتايا کہ واٹس ايپ پر 'آف دا ريکارڈ‘ مواد موصول ہو رہا ہے، جسے چلانا لازمی ہے۔
ايک اور صحافی کا دعویٰ تھا کہ اشاعت کے ليے پہلے ایک ہفتے ميں دو سے تين تيار شدہ تحریریں موصول ہو رہی تھیں مگر ان کی ہفتہ وار تعداد چھ سے سات تک ہو گئی ہے۔
ولسن سينٹر کے ساؤتھ ايشيا انسٹيٹيوٹ سے وابستہ ماہر مائیکل کوگلمين کے مطابق موجودہ صورت حال سے ظاہر ہے کہ سويلين اور عسکری قيادت پی ٹی آئی کو مکمل طور پر توڑ دینا چاہتی ہیں۔
ع س / م م (اے ایف پی)