1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پی ٹی آئی کی احتجاجی مہم: کیا اب بھی احتجاج کی طاقت ہے؟

عبدالستار، اسلام آباد
11 مارچ 2024

پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر احتجاجی موڈ میں نظر آرہی ہے لیکن کیا اس احتجاجی تحریک میں جوش و جذبہ ویسے ہی ہوگا جو دوہزار تیرہ سے تئیس تک رہا؟

https://p.dw.com/p/4dOfG
Pakistan Karachi | Proteste gegen angebliche Wahlmanipulationen nach Parlamentswahlen
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ ان کی پارٹی کا احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک چوری کیا گیا مینڈیٹ پارٹی کو واپس نہیں مل جاتا۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کی پارلیمان میں کم نمائندگی اور گرتی ہوئی احتجاجی صلاحیت ایسے احتجاج کی کامیابی پر سوالیہ نشان ہے۔

 واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کل بروز اتوار بھی احتجاج کی کال دی تھی۔ کچھ ناقدین کے خیال میں یہ کال موثر رہی اور پاکستان تحریک انصاف اب بھی  لوگوں کو سڑکوں پہ نکال سکتی ہے۔

 تاہم کچھ سیاسی مبصر دعویٰ کرتے ہیں کہ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف جی ایچ کیو کا سپورٹ کھو چکی ہے، وہ ماضی کی طرح لوگوں کو سڑکوں پہ نہیں نکال سکتی۔

تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے، پاکستانی عوام کے ارادے غیر متزلزل

پی ٹی آئی احتجاج کی صلاحیت رکھتی ہے

پاکستان  تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ وہ ملک کے ہر علاقے میں احتجاج کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ہزارہ ڈویژن سے تعلق رکھنے والی پاکستان تحریک انصاف کی رہنما اور ہزارہ ڈویژن پی ٹی آئی وومن ونگ کی صدر تہمینہ فہیم کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے کارکنوں نے خوف کے بت توڑ دیے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ناقدین یہ کہتے رہتے ہیں کہ احتجاجی طاقت نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ عمران خان کو ووٹ نہیں پڑیں گے۔ عوام نے بڑی تعداد میں خان کو ووٹ دے کر ان کے سارے اندازے غلط ثابت کر دیے۔‘‘

صرف کے پی نہیں پورا پاکستان

تہمینہ فہیم کے مطابق گرفتاریوں اور مقدموں سے تحریک انصاف کے لوگوں کو ڈرایا نہیں جا سکتا۔ ''پارٹی نہ صرف خیبر پختون خوا میں بلکہ ملک کے طول و عرض پر ہر جگہ بڑے مظاہرے کرے گی اور اس بات کو برداشت نہیں کرے گی کہ اس کے مینڈیٹ کو چوری کر لیا جائے۔‘‘

Pakistan Karachi | Proteste gegen angebliche Wahlmanipulationen nach Parlamentswahlen
پاکستان تحریک انصاف جی ایچ کیو کا سپورٹ کھو چکی ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف قومی سیاسی افق پر وہ واحد جماعت ہے جو ابھی بھی لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا, ”میرے خیال میں تحریک انصاف میں یہ صلاحیت اب بھی موجود ہے اور کم از کم وہ خیبر پختون خوا میں تو بہت بڑے مظاہرے کر سکتی ہے۔‘‘

’حمایت کی وجہ سے احتجاج کامیاب ہوگا‘

پاکستان تحریک انصاف کے حوالے سے یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسے ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل تھی لیکن کچھ سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اسے اب بھی یہ حمایت حاصل ہے۔  ماضی میں پاکستان تحریک انصاف سے وابستہ رہنے والی سابق رکن قومی اسمبلی مسرت زیب احمد کا کہنا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہی عمران کو پرہیزگار اور متقی بنا کر پیش کیا تھا اور اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی عمران کو حمایت حاصل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''انتخابات سے پہلے عمران خان کے خلاف فیصلے دے کر اسے مظلوم بنایا گیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت کو لایا گیا جس کے فیصلوں نے عمران کی شہرت میں اضافہ کیا۔ تو یہ سب اس بات کے اشارے ہیں کہ عمران کو ابھی بھی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے۔‘‘

 

مسرت زیب احمد کے مطابق کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی حمایت ابھی تک پی ٹی آئی  کو حاصل ہے۔ '' لہذا اگر وہ احتجاج کرتے ہیں تو اس کے کامیاب ہونے کا امکان موجود ہے کیونکہ موجودہ حکومت سے مسائل سنبھالے نہیں جائیں گے۔ پی ٹی آئی مہنگائی بے روزگاری اور دوسرے مسائل کو کیش کروائے گی۔‘‘

Pakistan Oppositionsanhänger demonstrieren in Lahore
پاکستان تحریک انصاف نے کل بروز اتوار بھی احتجاج کی کال دی تھیتصویر: Syed Murtaza/AFP/Getty Images

احتجاج کی کامیابی ممکن نہیں

تاہم کچھ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے لیے احتجاجی تحریک چلانا بہت مشکل ہے۔  پشاور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر ڈاکٹر فیض اللہ جان کا کہنا ہے کہ کئی ایسے عوامل ہیں جس کی بنیاد پر ایسی کسی تحریک کا کامیاب ہونا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پی ٹی آئی کے وہ لوگ جو عوام کو سڑکوں پہ لا سکتے ہیں وہ جیلوں میں ہیں۔ نو مئی کے بعد کارکنان میں مقدمات کا خوف ہے، جس کی وجہ سے وہ خود سڑکوں پہ نکلنے سے اجتناب برت رہے ہیں، تو عوام  کو لانا دور کی بات ہے۔ اس کے علاوہ رمضان آ رہا ہے جس میں کسی بھی احتجاجی تحریک کو چلانا بہت مشکل ہوگا۔‘‘

ممکنہ حکومتی ردعمل

 کراچی سے تعلق رکھنے والے تجزے نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ممکنہ طور پر احتجاجی تحریک کی صورت میں شدید رد عمل دے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' محسن نقوی کی تقرری اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر تحریک انصاف احتجاجی تحریک چلاتی ہے۔ تو اس سے سختی کے ساتھ نمٹا جائے گا۔‘‘

 توصیف احمد خان کے مطابق، ''تاہم ایسی کوئی بھی سختی تحریک انصاف کے فائدے میں جائے گی۔ ‘‘ توصیف احمد خان کے مطابق اگر حکومت کریک ڈاؤن کو شدید کرے گی تو اس سے خود حکومت کو نقصان اور تحریک انصاف کو فائدہ ہوگا۔

Pakistan Karachi | Proteste gegen angebliche Wahlmanipulationen nach Parlamentswahlen
موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے لیے احتجاجی تحریک چلانا بہت مشکل ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP/Getty Images

مریم اکرام ن لیگ کو پیاری ہوگئیں

 دوسری طرف حکومت بھی تحریک انصاف کے لوگوں کو توڑنے میں مصروف ہے۔ اس نے نہ صرف کے کچھ اراکین پنجاب اسمبلی کو توڑا ہے بلکہ ماضی میں تحریک انصاف کے حوالے سے ٹک ٹاک پہ ویڈیو بنانے والی مریم اکرام کو بھی پاکستان مسلم لیگ نون نے گود لے لیا ہے اور انہیں رکن قومی اسمبلی بھی بنوادیا ہے۔

مریم اکرام پر الزام تھا کہ وہ نو مئی کے احتجاج میں شریک تھیں۔ تاہم نون لیگ کی طرف سے ان کو گود لینے کے بعد ان کے وہ گناہ دھلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔

وہ مریم اکرام جو کل تک عمران خان کے گن گاتی تھیں اب وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہیں۔