چائلڈ میرج بِل ’غیر اسلامی‘ ہے، اسلامی نظریاتی کونسل
15 جنوری 2016پاکستان میں اکثر اوقات لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں کر دی جاتی ہیں۔ حکومتی جماعت مسلم لیگ کی خاتون رکن پارلیمان ماروی میمن اور دیگر اراکین میرج بِل میں قانونی طور پر تبدیلی لانے کی خواہش مند تھے۔ نئے تجویز کردہ بل کے تحت لڑکیوں کی شادی کی عمر قانونی طور پر سولہ برس سے بڑھا کر اٹھارہ برس کی جانا تھی اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے دو برس قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔
اس بابت اطلاعات کے حامل ایک ذریعے نے بتایا کہ ماروی میمن نے کم عمری میں شادیوں سے متعلق قانون میں تبدیلی سے متعلق ایک مسودہ پیش کیا، تاہم پارلیمانی کمیٹی برائے مذہبی امور کی جانب سے مسترد کر دیے جانے پر انہیں قومی اسمبلی سے اس مسودے کو واپس لینا پڑ گیا۔
اس حکومتی ذریعے کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل (CII) کی جانب سے کہا گیا ہے کہ کم عمری میں شادی سے متعلق موجودہ قانون میں تبدیلی غیر اسلامی اور توہین مذہب کے زمرے میں آتی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام سن 1962 میں عمل میں آیا تھا اور اس کا کام ملکی پارلیمان کو قانون سازی سے متعلق صلاح مشورے دینا ہے تاکہ کوئی بھی قانون اسلامی شرع سے متصادم نہ ہو۔
اس کونسل کی تجاویز کی پابندی حکومت پر لازم نہیں اور ماضی میں بھی اس کونسل کی جانب سے دی جانے والی بعض تجاویز پر عوامی سطح پر تنقید بھی دیکھنے میں آئی ہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ سن 2013ء میں بھی پیش آیا تھا، جب اسلامی نظریاتی کونسل نے جنسی زیادتی سے متعلق معاملات میں ’ڈی این اے‘ ٹیسٹ کو غیر اسلامی قرار دے دیا اور کہا کہ مذہبی نقطہٴ نظر کے مطابق ایسے کسی واقعے سے متاثرہ خاتون کو ہر حالت میں چار گواہان کو پیش کرنا ہو گا۔
نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پراس پارلیمانی ذریعے کا کہنا تھا، ’’ماروی چاہتی تھیں کہ کم عمر میں شادیاں کروانے والوں کے لیے دو برس قید اور جرمانے کی سزا رکھی جائے۔‘‘
اس ذریعے کا مزید کہنا تھا، ’’ماروی یہ بھی چاہتی تھیں کہ شادی کے لیے کسی لڑکی کی کم سے کم عمر کو 16 برس سے بڑھا کر 18 برس کر دیا جائے کیوں کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے کسی بھی طرح منافی نہیں ہے۔‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطابق اسلام میں شادی کی کوئی خاص عمر مقرر نہیں کی جا سکتی کیوں کہ اسلام بالغ لڑکے اور لڑکی کو شادی کی اجازت دیتا ہے۔