چار سالہ پاکستانی بچی پر جنسی حملہ اور قتل: دو ملزم گرفتار
7 فروری 2018پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے بدھ سات فروری کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق جنوری میں اس کم سن بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کی کوشش اور پھر اس کے قتل کے واقعے کے بعد پورے ملک میں عوامی سطح پر احتجاج شدید تر ہو گیا تھا۔
آکسفورڈ کے اسلامی علوم کے پروفیسر ریپ کے الزام میں حراست میں
’پاکستان گیارہ سے پندرہ برس کے بچوں کے لیے بہت پُرخطر‘
کیا زینب قتل کیس سیاسی موضوع بن چکا ہے؟
خیبر پختونخوا میں صوبائی پولیس کے سربراہ صلاح الدین محسود نے بدھ کے روز بتایا کہ دونوں مشتبہ ملزمان کی عمریں بیس برس سے کم ہیں۔ پولیس کے انسپکٹر جنرل کے مطابق ملزمان نے ابتدائی تفتیش کے دوران یہ اعتراف بھی کر لیا ہے کہ وہ اس چار سالہ بچی کو جنسی زیادتی کی نیت سے گنے کے ایک کھیت میں لے گئے تھے۔ پھر جب انہوں نے اس بچی کو ریپ کرنے کی کوشش کی تو اس کے چلانے کی وجہ سے ملزمان نے گلا گھونٹ کر اس بچی کو ہلاک کر دیا۔
پاکستان میں حالیہ ہفتوں کے دوران کم سن بچوں اور بچیوں کے ساتھ کی جانے والی جنسی زیادتیوں اور متعدد واقعات میں ریپ کے بعد ان بچوں کو قتل بھی کر دیے جانے کے خلاف تقریباﹰ پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔ اس دوران پولیس کی طرف سے مبینہ غفلت پر بھی گہری ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
’زینب کا مشتبہ قاتل پڑوس ہی میں رہتا تھا‘
پاکستان: زینب کا مبینہ قاتل گرفتار کر لیا گیا، پولیس
یہ مظاہرے خاص طور پر صوبہ پنجاب کے شہر قصور میں ایک سات سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کے بعد شروع ہوئے تھے، جس پر پورے ملک میں شدید غم و غصےکی لہر دیکھی گئی تھی۔ زینب کی لاش کئی روز بعد قصور شہر ہی میں کوڑے کے ایک ڈھیر سے ملی تھی۔
زینب کے مشتبہ قاتل کو کئی روزہ تفتیش کے بعد گرفتار کر لیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر ایک ’سیریل کِلر‘ ہے اور وہ زینب کے ریپ اور قتل سے قبل سات دیگر معصوم بچیوں کے ریپ اور قتل کا مرتکب بھی ہوا تھا۔