1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چاند کا پچھلا حصہ، چین کا منصوبہ کیا ہے؟

9 دسمبر 2018

چین ایک خلائی طاقت بننے کے اپنے ہدف کی جانب ایک اور اہم قدم اٹھا رہا ہے۔ چین کا خلائی معائنہ کار مشن ’چانگ چہارم روور‘ جلد ہی چاند کے پچھلی طرف ایک انتہائی دور افتادہ علاقے پر اترنے کو ہے۔

https://p.dw.com/p/39lEI
China Chang'e-4 Mondprogramm | Start
تصویر: picture-alliance/Photoshot

چینی میڈیا کے مطابق چین وہ پہلا ملک بننے والا ہے، جو یہ مشن چاند کے ایک ایسے علاقے میں اتارے گا، جہاں انسان آج تک نہیں پہنچا۔ چینی خبر رساں ادارے سنہوا کے مطابق تھری بی راکٹ کے ذریعے چانگ چہارم خلائی جہاز کو ملک کے جنوب مغربی علاقے شی چانگ سے مقامی وقت کے مطابق ہفتہ آٹھ دسمبر کی رات دو بج کر تئیس منٹ پر روانہ کر دیا گیا۔ بتایا گیا ہےکہ یہ خلائی جہاز دسمبر کے آخر میں چاند کی سطح پر پہنچے گا اور وہاں موجود معدنیات کے جائزے لینے کے علاوہ تاب کاری کی پیمائش بھی کرے گا۔

چاند کے تاریک حصے میں اترنے کا چینی مشن، سیٹلائٹ روانہ

چین کا چاند تک ’لانگ مارچ‘: ایک خواب ٹوٹا ہے، حوصلہ نہیں

یہ بات اہم ہے کہ چوں کہ زمین خود بھی اپنے محور کے گرد گردش کر رہی ہے، اس لیے زمین کے گرد گردش کرتے چاند کا صرف ایک حصے زمین کی جانب رہتا ہے اور چاند کا پچھلا یا پرلا حصہ زمین پر موجود انسانوں کی نظروں سے ہمیشہ اوجھل رہتا ہے۔ یہ چینی مشن چاند کے اسی حصے پر اتارا جا رہا ہے، جو ہمیشہ سے ہی انسانی آنکھ سے اوجھل رہا ہے۔

سابق سوویت یونین نے سن 1959 میں پہلی بار اس حصے کی تصاویر بنائی تھیں۔ سائنس دانوں کے مطابق چاند کے اس حصے کی سطح انتہائی ناہم وار ہے اور اس روور کو وہاں بڑے آرام سے اتارنا چینی سائنس دانوں کے لیے ایک مشکل عمل ہو گا۔  چوں کہ چاند کے اس اوجھل حصے پر اتارے جانے والے اس روور تک براہ راست سگنلز کی فراہمی بھی ممکن نہیں، یعنی اس روبوٹ کو زمین سے براہ راست ہدایات نہیں دی جا سکیں گی، اس لیے اس مشن سے قبل رواں برس مئی میں چین نے چاند کے مدار میں ایک سیٹلائٹ بھی بھیجا تھا۔ یہی سیٹلائٹ زمین سے بھیجے جانے والے احکامات کے سگنلز کا رخ بدل کر ان کو چاند کی دوسری طرف اس روبوٹ تک پہنچانے کا کام سرانجام دے گا۔ اس سیٹلائٹ کو چیکیاؤ یا ’’میپی برِج‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔

چین نے اس سے قبل سن 2013ء میں بھی اپنا ایک روبوٹ یوٹو ’’جیڈ ریبِٹ‘ چاند پر اتارا تھا۔ چین اپنا آئندہ مشن ’چانگ پنجم‘ چاند پر اتارنے اور پھر وہاں سے مٹی اور پتھروں کے نمونے لے کر واپس زمین پر پہنچانے کے منصوبے پر بھی کام کر رہا ہے۔ چینی سائنس دان ان تجربات کے ذریعے چاند پر سبزیاں اور دیگر حیاتیاتی اجسام پیدا کرنے (اگانے) کے امکانات پر بھی غور کر رہے ہیں۔ اگر یہ چینی منصوبہ کامیاب ہو گیا تو سن 1976 کے بعد یہ پہلا موقع ہو گا کہ چاند سے مختلف نمونے زمین پر لائے جائیں گے۔

چین اپنے خلائی پروگرام میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے سن 2030 تک ایک بڑی خلائی طاقت بننے کے پروگرام پر کام کر رہا ہے۔ چین کا منصوبہ ہے کہ وہ چاند پر اپنا ایک اڈہ بھی قائم کرے، جو مستقبل کے ممکنہ مریخ مشن کے لیے ایک پڑاؤ کا کام بھی کر سکے، تا کہ وہاں خوراک اور ایندھن سمیت طویل سفر کے لیے دیگر ضروری عوامل کی دستیابی کے امکانات کو بھی جانچا جا سکے۔

الیگزانڈر مِشاعل پیئرسن، ع ت، م م