1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چانسلر ميرکل کی جاسوسی 2002ء سے جاری ہے، جرمن اخبار

عاصم سليم27 اکتوبر 2013

امريکا کی جانب سے جرمن چانسلر کے ٹيلی فون کی مبينہ جاسوسی سے متعلق خبروں کے تناظر ميں ان دنوں واشنگٹن پر کافی دباؤ ہے۔ اسی سلسلے ميں وضاحت طلب کرنے کے ليے جرمن انٹيليجنس کے اعلی اہلکار اگلے ہفتے امريکا روانہ ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/1A6m1
تصویر: Reuters

جرمن اخبار ڈيئر اشپيگل کی ہفتے کے روز شائع ہونے والی ايک رپورٹ کے مطابق امريکی خفيہ ادارے سن 2002 سے جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کی جاسوسی کر رہے ہيں۔ اسی رپورٹ ميں يہ بھی لکھا ہے کہ ’اوباما نے ميرکل سے کہا کہ اگر انہيں اس بات کا علم ہوتا، تو وہ اس عمل کو رکوا ديتے‘۔

دريں اثناء ’بلڈ ام زونٹاگ‘ نامی ايک اور جرمن اخبار کے مطابق اوباما کو ميرکل کی جاسوسی کے بارے ميں سن 2010 تک علم نہ تھا اور اس وقت نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے سربراہ کيتھ اليگزينڈر نے خود اوباما کو اس بارے ميں مطلع کيا تھا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر اين ايس اے کے ايک اہلکار نے جرمن اخبار کو بتايا کہ اس بارے ميں بتائے جانے کے بعد بھی صدر اوباما نے چانسلر ميرکل کی جاسوسی کے عمل کو نہيں رکوايا تھا۔ ان رپورٹوں کے سبب اس بارے ميں نئے سوالات کھڑے ہو گئے ہيں کہ صدر اوباما کو ميرکل کے ٹيلی فون کی نگرانی کے بارے ميں کتنا اور کب سے معلوم تھا۔

جاسوسی سے متعلق پروگرام پرزم کا راز فاش ايڈورڈ سنوڈن نے کيا
جاسوسی سے متعلق پروگرام پرزم کا راز فاش ايڈورڈ سنوڈن نے کياتصویر: picture-alliance/AP

دریں اثناء چانسلر ميرکل کے نائب ترجمان گیورگ اسٹريٹر نے جمعے کے روز بتايا کہ جرمنی کے اعلی سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ايک ٹيم جاسوسی سے متعلق حاليہ رپورٹوں کے حوالے سے وائٹ ہاؤس اور امريکا کی نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے ساتھ بات چيت کے ليے جائے گی۔ بعد ازاں جرمن ميڈيا نے خفيہ ايجنسيوں کے ذرائع سے ہفتے کے روز بتايا کہ اس وفد ميں خفيہ اداروں کے اعلی اہلکار شامل ہوں گے۔

اسی تناظر ميں رواں ہفتے برسلز ميں ہونے والے يورپی يونين کے اجلاس ميں اس نتيجے پر پہنچا گيا تھا کہ انٹيليجنس سے جڑے معاملات ميں نئے ’سمجھوتے يا معاہدے‘ کی ضرورت ہے اور جرمنی اور فرانس رواں سال کے اختتام تک واشنگٹن انتظاميہ کے ساتھ ايسے کسی معاہدے کو حتمی شکل دينے کی کوشش کريں گے۔

جرمنی اور برازيل اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ليے ايک قرارداد کے مسودے پر بھی کام کر رہے ہيں جس کا مقصد امريکا کی جانب سے کی گئی جاسوسی پر عالمی برہمی کو وضع کرنا ہے۔ نيوز ايجنسی اے ايف پی کے مطابق يہ بات اسی ہفتے سفارت کاروں نے بتائی ہے۔ گو کہ اس قرارداد ميں امريکا کا نام نہيں ليا جائے گا ليکن اس کا مقصد ان فريقين کو تنبيہ کرنا ہے جو نظام کا غلط استعمال کر رہے ہيں۔

دريں اثناء جرمنی کے صوبہ باويريا کے ايک اخبار ’زوڈ ڈوئچ ذائيٹنگ‘ نے اس جانب اشارہ کيا ہے کہ جاسوسی سے متعلق امور ميں فرانس کا کردار ’دوہرا‘ ہو سکتا ہے کيوں کہ پيرس انتظاميہ کا آسٹريليا، برطانيہ، کينيڈا، نيوزی لينڈ اور امريکا کے ساتھ ايک معاہدہ طے ہے، جس کی بدولت يہ تمام ممالک ايک دوسرے کے ساتھ تقريبا تمام انٹيليجنس شيئر کرتے ہيں اور اس معاہدے کے تحت ايک دوسرے کی جاسوسی ممنوع ہے۔

واضح رہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے ايسی خبروں نے گردش کرنا شروع کيا کہ امريکا فرانسيسی باشندوں کی جاسوسی کرتا رہا ہے۔ بعد ازاں يہ رپورٹيں بھی سامنے آئيں کہ نيشنل سکيورٹی ايجنسی جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کے فون کی نگرانی سميت متعدد ديگر عالمی رہنماؤں کی جاسوسی کرتی رہی ہے۔ اسی تناظر ميں جرمن چانسلر نے امريکی صدر باراک اوباما سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کيا اور اوباما نے ميرکل کو يقين دلايا کہ ايسا نہيں ہوا۔ پھر يہی موضوع يورپی يونين کے اجلاس ميں بھی خاصی اہميت کا حامل رہا، جس ميں متعدد يورپی رہنماؤں نے امريکا کی مبينہ جاسوسی کی رپورٹوں پر اپنی برہمی کا اظہار کيا۔

واضح رہے کہ جاسوسی سے متعلق ايسے بيش تر انکشافات اور الزامات کے پيچھے نيشنل سکيورٹی ايجنسی کے سابق کانٹريکٹر ايڈورڈ سٹوڈن ہيں، جو ان دنوں روس ميں عارضی سياسی پناہ پانے کے بعد وہيں مقيم ہيں۔