چترال میں تین لاکھ شہری سیلابی پانی میں محصور
22 جولائی 2015پانی اور ادویات کی قلت کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ سیلاب سے سو سے زائد گھر، چالیس رابطہ پُل، بجلی گھر اور پانی اور بجلی کی فراہمی کے نظام بھی تباہ ہو گئے ہیں جبکہ ساٹھ سے ستر فیصد تک کھڑی فصلیں بھی برباد ہو گئی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے ان علاقوں کے ملک کے دیگر حصوں سے رابطے بھی منقطع ہوگئے ہیں جبکہ ان علاقوں میں امداد پہنچانے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف،خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی پرویز خٹک اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بدھ کے روز متاثرہ علاقوں کے دورے کیے۔ علاقے کا فضائی جائزہ لینے کے بعد مقامی انتظامیہ نے انہیں امدای سرگرمیوں اور سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں بریفنگ دی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے اس موقع پر چترال کے سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کے کاموں کے لیے پچاس کروڑ روپے دینے کا اعلان کیا جبکہ چترال میں مزید یوٹیلیٹی سٹورز کھولنے کی ہداہت بھی کی۔
انہوں نے چترال کے ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ زمنینی راستے یعنی لواری ٹنل (زیر تعمیر) کو اگلے سال دسمبر سے قبل مکمل کرنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ اس کے لیے تین ارب روپے کے فنڈز مختص کیے گیے ہیں تاہم اگر ضرورت پڑی تو مزید فنڈز بھی فراہم کیے جائیں گے۔ اس موقع پر انہوں نے زرعی قرضوں کی معافی کا اعلان بھی کیا۔
دوسری جانب وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا بھی بدھ کی صبح چترال پہنچ گئے۔ انہوں نے صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد چترال کو آفت زدہ ضلع قرار دے دیا جبکہ ابتدائی طور پر رابطہ پلوں کی بحالی کے لیے ایک سو چار ملین روپے کی فراہمی کا اعلان بھی کیا۔ وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے سیلاب سے تباہ شدہ انفراسٹرکچر کی بحالی کےلیے پچاس کروڑ روپے فراہم کرنے کا اعلان بھی کیا۔ انہوں نے قدرتی آفات سے نمٹنے والے اداروں، ضلعی انتظامیہ اور انجینیئرنگ ڈیپارٹمنٹ کو ہدایات دیں کہ وہ رابطہ پلوں کی بحالی کاکام جلد از جلد مکمل کریں۔
ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ رابطہ پُل تباہ ہونے کی وجہ سے بعض پہاڑی علاقوں میں پھنسے لوگوں تک رسائی میں مشکلات درپیش ہیں۔ دوسری جانب فوج، فضائیہ، نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اور صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کا علمہ بھی چترال پہنچ چکا ہے جہاں اشیائے ضرورت کی فراہمی کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
امدادی کاموں میں سب سے اہم کردار فوج اور فضائیہ ادا کر رہے ہیں۔ ملکی فوج کے جوانوں نے آج بدھ کے روز مزید ساٹھ لوگوں کو محفوظ مقام پر پہنچایا، جن میں بچے، بوڑھے اور سیاح بھی شامل تھے جبکہ مختلف علاقوں میں پھنسے ہوئے لوگوں تک آٹھ ٹن اشیائے خورد و نوش بھی پہنچائی گئیں۔ فوج کے انجینیئر نے دن رات کام کر کے دو اہم رابطہ پُلوں کو بحال کرتے ہوئے متاثرہ علاقوں میں اشیائے ضرورت پہنچانا شروع کر دی ہیں جبکہ ڈاکٹروں کی مختلف ٹیموں نے بھی ضلع کے مختلف علاقوں میں متاثرہ افراد کو طبی امداد کی فراہمی کا کام شروع کردیا ہے۔
چترال رقبے کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا، زرخیز اور پُرامن ضلع ہے، جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ سیلاب کی وجہ سے وہاں کے لاکھوں لوگوں کا سات روز سے ملک کے دیگر علاقوں سے رابطہ منقطع ہے۔ چترال کے سماجی کارکن صادق امین نے رابطہ کرنے پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گزشتہ سال بھی سیلاب سے لوگوں کا لاکھوں کا نقصان ہوا تھا لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے بحالی کے وعدے پورے نہیں کیے گئے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ سیلاب کی بڑی وجہ صوبے میں جنگلات کی بےدریغ کٹائی ہے، جو حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے آج بھی جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اب سولہ سال بعد کسی وزیر اعظم نے چترال کا دورہ کیا ہے جبکہ ایک لواری ٹنل ہی گزشتہ چار عشروں میں مکمل نہیں ہو سکی۔‘‘
محکمہ موسمیات کے مطابق صوبے خیبر پختونخوا میں مون سون کی بارشوں کا سلسلہ ممکنہ طور پر مزید سات دن تک جاری رہے گا۔