چولہوں کا دھواں، ’موت کا پیغام بنتا ہوا‘
18 نومبر 2013عالمی بینک کی طرف سے پیر کو جاری کی گئی ایک تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوئلہ، لکڑی اور ڈیزل کے جلنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی ضرر رساں گیسوں کے اخراج پر سخت پابندیوں کے نتیجے میں سالانہ 34 لاکھ انسانوں کو قبل از وقت موت کا شکار بننے سے روکا جا سکتا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اسی دھوئیں یا گیسوں کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں بھی وقوع پذیر ہو رہی ہیں، جس سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی تجویز کیا گیا ہے کہ ان گیسوں کے اخراج میں کمی کے باعث گلوبل وارمنگ کی رفتار میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں زیادہ تر افراد لکڑی یا کوئلے کے چولہوں پر کھانا پکاتے ہیں، جس کی وجہ سے دھوئیں کی ایک بڑی مقدار نہ صرف فضا میں شامل ہو جاتی ہے بلکہ اس کے انسانوں کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان گیسوں سے زیادہ تر بچے اور خواتین متاثر ہوتے ہیں، جو کھانا پکانے کے دوران ایسے چولہوں کے قریب ہوتے ہیں۔ یہ گیسیں سانس اور دل کی مخلتف بیماریوں کا باعث بنتی ہیں، جس سے انسان ہلاک بھی ہو جاتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ميتھین اور باریک کالک سے پیدا ہونے والی آلودگی پر قابو پانے پر زور دیا گیا ہے۔ عالمی بینک کی اس رپورٹ کے مطابق، ’’اگر زیادہ آلودگی کا باعث بننے والے چولہے استعمال نہ کیے جائیں اور ایسے چولہے استعمال کیے جائیں، جو صاف ایندھن سے چلائے جاتے ہیں تو سالانہ ایک ملین انسانوں کی ہلاکت سے بچا جا سکتا ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق اس آلودگی پر کنٹرول کے نتیجے میں زرعی پیداوار میں بھی بہتری ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے فصلوں کی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔2011ء میں اقوام متحدہ کے ایک مطالعے میں بھی کہا گیا تھا کہ ميتھین اور لکڑی یا کوئلے کے جلنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی باریک کالک پر کنٹرول پانے سے عالمی درجہ حرارت میں اضافے سے بچا جا سکتا ہے۔