چينی ايٹمی پلانٹس ميں اضافہ ہو گا:جاپان سے کچھ نہيں سيکھا
15 مارچ 2011چين کی نیشنل پيپلز کانگريس نے کل اپنے دس روزہ اجلاس کے اختتام پر، جس ميں نئے پانچ سالہ منصوبے کی منظوری دی گئی، ملک ميں ايٹمی بجلی گھروں کی تعداد ميں بڑے پیمانے پر اضافے کا اعلان کيا۔
نيا پانچ سالہ منصوبہ بہت بڑی اکثريت سے منظور کيا گيا۔ ايک پارليمانی ترجمان نے کہا کہ 3000 عوامی نمائندوں ميں سے صرف 59 نے نئے منصوبے کے خلاف ووٹ ديے، جس ميں ايٹمی بجلی کی پيداوار ميں زبردست اضافے کا پروگرام بنايا گيا ہے۔ 38 نمائندوں نے اپنی رائے محفوظ رکھی اور ووٹ نہيں ديے۔ نئے پانچ سالہ منصوبے ميں چين نے اقتصادی نمو کو سات فيصد سالانہ کی شرح تک محدود رکھنے کا فيصلہ کيا ہے۔ توانائی اور وسائل کی بچت پر بھی زيادہ توجہ دی جائے گی۔
يہ اعلان بھی کيا گيا ہے کہ چين کوئلے سے بجلی پيدا کرنے پر انحصار کم کر دے گا اور اس کے بجائے صاف اور قابل تجديد توانائی کے ذرائع کو زيادہ وسعت دی جائے گی۔ چينی حکومت توانائی يا بجلی کے حصول کے ان ذرائع ميں آبی قوت اور ہوائی قوت کے علاوہ ايٹمی طاقت کو بھی شامل کرتی ہے۔ اس لیے وہ سن 2015 تک ايٹمی توانائی سے بجلی پيدا کرنے والے 28 نئے پاور پلانٹ تعمير کرنا چاہتی ہے۔
اس طرح وہ اگلے پانچ برسوں ميں ملک ميں بجلی کی پيداوار کو 40 گيگا واٹ تک بڑھا دينا چاہتی ہے۔ رياستی ميڈيا کے مطابق سن 2020 تک بجلی کی مجموعی قومی پيداوار کو 80 گيگا واٹ تک پہنچا دينے کا پروگرام ہے۔ يہ موجودہ پيداوار ميں آٹھ گنا اضافہ ہوگا۔
تاہم ناقدين جاپان کے واقعات کے پيش نظر ايک نئی پاليسی کا مطالبہ کر رہے ہيں۔ تحفظ ماحول کی گرين پارٹی کی توانائی سے متعلقہ امور کی ماہر لی يان نے کہا: ’’جاپان کا موجودہ بحران چين کے لیے ايک موقع بھی ہے کہ وہ اپنے اونچے اہداف پر نظر ثانی کرے۔ چين کے پاس ہوائی اور شمسی توانائی جيسی صاف اور محفوظ توانائی کے ذريعے اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وسائل موجود ہيں۔‘‘
چين ميں ايٹمی توانائی کی مخالف کوئی تحريک نہيں ہے اور مخالفين بھی بہت کم ہی ہيں۔ چينی حکومت نے يہ واضح کر ديا ہے کہ وہ ايٹمی پاور پلانٹس کی تعداد بڑھانے کے منصوبے پر جمی رہے گی۔ ليکن اس کے ساتھ ہی اس نے ملک کے ساحلی علاقوں ميں جاپان سے آنے والے ممکنہ خطرناک تابکاری اثرات کی پيمائش کے لیے حساس آلات کو بھی فعال کر ديا ہے۔
رپورٹ: روتھ کرشنر، بیجنگ / شہاب احمد صدیقی
ادارت: مقبول ملک