چين ميں صدارتی مدت کا خاتمہ، شی جن پنگ کے ليے ميدان صاف
11 مارچ 2018چين ميں نيشنل پيپلز کانگريس کے سالانہ پارليمانی اجلاس کے دوران اتوار گيارہ مارچ کو ارکان نے بھاری اکثريت کے ساتھ اس آئينی ترميم کی منظوری دے دی ہے، جس کے تحت صدر کے عہدے پر فائز رہنے کی اب کوئی مدت مقرر نہيں۔ مجموعی طور پر 2,963 ارکان ميں سے 2,958 نے ترميم کی منظوری دی، دو نے اس کی مخالفت ميں ووٹ ڈالا جبکہ تين نے اپنا حق رائے دہی استعمال نہيں کيا۔ اس پيشرفت کے نتيجے ميں موجودہ صدر شی جن پنگ ملکی تاريخ کے طاقتور ترين رہنما بن سکتے ہيں۔ ان کے غير معينہ مدت تک کے ليے منصب صدرات پر فائض رہنے ميں اب کوئی دستوری رکاوٹ نہيں۔
چونسٹھ سالہ شی جن پنگ کو سن 2012 ميں چين کی برسر اقتدار کميونسٹ پارٹی کے جنرل سيکرٹری کے طور پر اعلیٰ ترين عہدے پر مقرر کيا گيا تھا۔ اگرچہ اس عہدے کی کوئی حدد مقرر نہيں تاہم ان کے پچھلے دو پيش رو، دو دو مدتوں کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ چين ميں صدر کا عہدہ کافی حد تک علامتی حيثيت رکھتا ہے اور آئين کے مطابق شی جن پنگ کو سن 2023 ميں اس عہدے سے سبکدوش ہونا پڑتا۔
اتوار گيارہ مارچ کو ہونے والی پيش رفت کے نتيجے ميں اب صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کی کوئی حد مقرر نہيں۔ يوں شی جن پنگ اس صدی کے وسط تک چين کو عالمی اقتصاديات ميں طاقت ور ترين ملک بنانے اور عالمی سطح کی فوج کھڑی کرنے کے اپنے ارادوں کو تکميل تک پہنچانے کی کوششيں بلا رکاوٹ جاری رکھ سکيں گے۔
چين ميں شی جن پنگ داخلی سطح پر بدعنوانی کے خلاف کريک ڈاؤن کے ليے عوام ميں پسند کيے جاتے ہيں۔ کرپشن کے انسداد کے ليے جاری کارروائيوں ميں اب تک ايک ملين سے زائد پارٹی ارکان کو سزائيں دی جا چکی ہيں۔ دريں اثناء انہوں نے اپنے سياسی حريفوں کو بھی ميدان سے باہر کر ديا ہے۔ شی جن پنگ نے سول سوسائٹی پر قدغنيں لگائيں، ان کے دور ميں وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو حراست ميں رکھے جانے کے عمل ميں تيزی اور انٹرنِٹ پر حکومتی کنٹرول يا گرفت ميں مضبوطی دیکھنے میں آئی۔
ع س / ص ح، نيوز ايجنسياں