چين کی طرف سے جمہوريت کی راہ ميں خلل ڈالنا باعث تشويش ہے، امريکی پينل
10 اکتوبر 2014امريکی کانگريس کی چين سے متعلق ایگزيکٹیو کميٹی نے جمعرات نو اکتوبر کے روز اپنی سالانہ رپورٹ پيش کی، جس ميں چين ميں انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزيوں سميت ديگر امور پر تنقيد کی گئی ہے۔ اس رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ چينی صدر شی جن پنگ ملک کے سابقہ حکمرانوں ہی کی طرح آمرانہ طرز حکومت جاری رکھے ہوئے ہيں۔
کميٹی کے سربراہ سينيٹر شيرروڈ براؤن نے رپورٹ پيش کرتے وقت کہا، ’’چيف ایگزيکٹيو کے انتخاب کے ليے ہانگ کانگ ميں 2017ء ميں ہونے والے آزادانہ انتخابات کی راہ ميں چين کی طرف سے کھڑی کردہ رکاوٹوں کے سبب ہانگ کانگ ميں جمہوری ترقی کو ٹھيس پہنچی ہے۔‘‘ ڈيمو کريٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے سينيٹر براؤن نے مزيد کہا کہ صدر اوباما کو آئندہ ماہ بيجنگ ميں ہونے والی براہ راست ملاقات ميں اپنے چينی ہم منصب پر ہانگ کانگ اور ديگر امور کے حوالے سے زور دينا چاہيے۔
يہ امر اہم ہے کہ ہانگ کانگ ميں زيادہ تر طلباء پر مشتمل ہزاروں جمہوريت نواز مظاہرين کا مطالبہ ہے کہ شہر کے ليے بيجنگ حکومت کی طرف سے مقرر کردہ رہنما ليونگ چن ينگ اپنے عہدے سے مستعفی ہوں اور چينی انتظاميہ ہانگ کانگ کے عوام کو 2017ء ميں ہونے والے انتخابات ميں اپنی مرضی کا رہنما چننے کا اختيار دے۔
اس کے برعکس بیجنگ میں چينی انتظاميہ پہلے اميدواروں کی جانچ پڑتال کرنا چاہتی ہے۔ اسی تناظر ميں وہاں ايک ہفتے سے زائد عرصے سے جاری مظاہروں اور دھرنوں کے سلسلے نے نظام زندگی بری طرح متاثر کر رکھا ہے۔ مظاہرين اور حکومت کے مابين ہونے والے مذاکرات جمعرات کے روز بغير کسی نتيجے کے ختم ہو گئے، جس سبب ہانگ کانگ کو ايک نئے سياسی بحران کا سامنا ہے۔
چين اور بالخصوص ہانگ کانگ کی پيش رفت کے حوالے سے امريکی کانگريس ميں پيش کردہ رپورٹ ميں بيجنگ پر کڑی تنقيد کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بيجنگ کی طرف سے جہوريت کی راہ ميں خلل ڈالنے سے متعلق اقدامات سے ہانگ کانگ اور بيجنگ کے مابين قائم سياسی تعلقات کے مستقبل کے بارے ميں تشويش جنم ليتی ہے۔
کانگريس کی اس کميٹی نے 1992ء کے ايک قانون پر بھی دوبارہ عمل در آمد کا ذکر کيا، جس کے تحت امريکی محکمہ خارجہ کو ہانگ کانگ کے حوالے سے سالانہ بنيادوں پر ايک تفصيلی رپورٹ تيار کرنا تھی۔ رپورٹ ميں سفارش پيش کی گئی ہے کہ ہانگ کانگ ميں جمہوری اداروں کے فروغ کے ليے اور اس بات کو يقينی بنانے کے ليے کہ چين اپنی بين الاقوامی ذمہ داريوں کو پورا کرے، امريکا کو خاص توجہ دينی چاہيے۔
اس بات کے قوی امکانات ہيں کہ کانگرنس کی اس تازہ رپورٹ پر بيجنگ حکومت سخت رد عمل کا اظہار کرے گی۔ گزشتہ ہفتے ہی چينی حکام نے واشنگٹن کو تنبيہ کی تھی کہ وہ اس کے ’اندرونی معاملات‘ ميں دخل اندازی نہ کرے۔