چھ ججوں کا خط: آئی ایس آئی کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ
27 مارچ 2024پاکستان تحریک، بلوچستان بار کونسل، اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایسشن، سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے اس خط کے حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جبکہ لاہور ہائی کورٹ بار کے کا ایک رکن نے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر، جسٹس بابر ستار، طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی طرف سے 25 مارچ کو ایک خط میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس کے اہلکار عدالتی کارروائی اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ خط شوکت عزیز صدیقی کی نظر ثانی کی اپیل کے فیصلے کے دو دن بعد، یعنی منگل کو منظر عام پر آیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی کچھ برسوں پہلے پاکستان کی طاقتور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر الزام لگایا تھا کہ وہ عدالتوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ان- کے اس الزام کی وجہ سے انہیں نوکری سے برخاست کر دیا گیا تھا، جس کے خلاف انہوں نے نظر ثانی کی اپیل کی تھی۔ سپریم کورٹ نے ان کی برطرفی کو کچھ دنوں پہلے ہی ختم کیا ہے۔
اب چھ ججوں کے خط میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس جاسوسی ادارے کے اہلکار مبینہ طور پر ججوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور عدالتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔ خط میں ایسی مداخلت کے سات واقعات ہونے کا دعوی کیا گیا ہے۔
خط میں کون سے دعوے کیے گئے ہیں؟
خط میں دعوی کیا گیا کہ جب ایک تین رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف ایک پٹیشن کو ناقابل سماعت قرار دیا، تو دو ججوں پر دباو ڈالا گیا۔ اس پٹیشن میں دعوی کیا گیا تھا کہ عمران خان کی ایک بیٹی ہے، جس کا انہوں نے تذکرہ انتخابی کاغذات میں نہیں کیا۔ لہذا انہیں نااہل قرار دیا جائے۔
یہ بھی دعوی کیا گیا کہ ایک جج کے بہنوئی کو مسلح افراد نے اغوا کیا اور اغواکاروں کا تعلق مبینہ طور پر آئی ایس آئی سے تھا جبکہ جج کے بہنوئی کو بجلی کے جھٹکے بھی لگائے گئے۔ ان تمام معاملات کی اطلاع اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق کو دی گئی۔
خط میں یہ بھی دعوی کیا گیا کہ ایک جج کے بیڈ روم میں جاسوسی کے آلات لگائے گئے جب کہ دباو
ضلعی عدالتوں کے ججوں پر بھی ڈالا گیا۔
خط میں مطالبہ کیا گیا کہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کی مبینہ مداخلت کے حوالے سے جوڈیشل کنونشن بلایا جائے۔
ازخود نوٹس کا مطالبہ
ان انکشافات نے نہ صرف پاکستان کے عدالتی بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ پاکستان جوڈیشل کمیشن کے رکن راہب بلیدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمیں ان انکشافات پر شدید تشویش ہے۔ پہلے بھی شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیق نہیں ہوئی۔ اب سپریم کورٹ کو فوری طور پر اس کا نوٹس لینا چاہیے۔‘‘
راہب بلیدی کے مطابق وہ پاکستان بار کونسل سے بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ پورے ملک کے وکلا نمائندگان کی ایک کانفرنس بلائے۔
آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی کا مطالبہ
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک عہدے دار ربیعہ باجوہ بھی اس خط پر تحقیقات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ربیعہ باجوہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ججز نے جو بھی انکشافات کیے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ میں کھلی عدالت میں کارروائی چلنی چاہیے تاکہ پوری قوم دیکھے کہ حقائق کیا ہیں۔‘‘
ربیعہ باجوہ کا کہنا ہے کہ آئی ایس آئی کو کوئی اختیار نہیں ہے کہ وہ اس طرح کسی بھی شہری کو بلیک میل کرے یا ان کو دھمکی دے، ''اس طرح عدالتی معاملات میں دخل اندازی کرنا یا ججوں کو محکوم بنانے کی کوشش کرنا آئین سے غداری کرنے کے مترادف ہیں۔ جن لوگوں پر الزام ہیں ان کے خلاف تحقیقات کر کے انہیں آرٹیکل چھ کے تحت سزا دی جائے۔‘‘
’خط عامر فاروق کے خلاف سازش‘
تاہم وکلا برادری کے کچھ اراکین اس خط کو ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیتے ہیں اور ججوں کے ارادے بے نقاب کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اس مسئلے پر سپریم کورٹ میں پٹیشن لے کر پہنچنے والے وکیل میاں داؤد ایڈوکیٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس تحقیقات میں یہ معلوم کیا جانا چاہیے کہ ان ججز کے کیا ارادے ہیں کیونکہ عمران خان کے خلاف سائفر اپیل اپنے اختتامی مراحل پر پہنچ رہی ہے اور ایسے میں اچانک یہ خط آ جاتا ہے، جو جسٹس عامر فاروق کو ٹارگٹ کرتا ہے۔‘‘
میاں داؤد ایڈوکیٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے پہلے جسٹس عامر فاروق سے کئی مقدمات میں یہ درخواست کی کہ وہ اپنے آپ کو بینچ سے علیحدہ کر لیں، ''اور جب انہوں نے اپنے آپ کو بینچ سے علیحدہ نہیں کیا تو پہلے ان کے خلاف مہم شروع کی گئی اور پھر یہ خط آگیا اور اب وہ مہم ایک بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔‘‘
’ججوں کے خلاف الزامات گھٹیا ہیں‘
تاہم انسانی حقوق کی کارکن اور معروف وکیل ایمان زینب مزاری ایسے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتی ہیں۔ ایمان زینب مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ججوں کے خلاف الزامات انتہائی گھٹیا ہیں، جو ن لیگ کے کچھ لوگوں کی طرف سے لگائے جارہے ہیں۔ ان ججوں کا کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔‘‘
ربیعہ باجوہ بھی اس تاثر کی سختی سے تردید کرتی ہیں کہ ان ججوں کا کوئی ایجنڈا ہے، ''ان ججوں نے پہلے بھی خط لکھ کر اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا، تو یہاں اس خط کی ٹائمنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اصل مسئلہ مداخلت کا ہے۔‘‘