چیرنوبل: ٹھہری ہوئی زندگیوں کے لوگ
چیرنوبل کو تین دہائیوں قبل جوہری آفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اس شہر کے تیس کلومیٹر کے اندر اب بھی انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ واپس لوٹ آئے۔ یوکرائنی فوٹوگرافر علینا روڈیا نے ان لوگوں ملاقات کی۔
بابا گانیا کی وبائی خوش امیدی
تصویر میں بائیں جانب چھیاسی سالہ بابا گانیا ہیں۔ ان کے شوہر کی موت قریب ایک دہائی پہلے ہو چکی ہے۔ وہ پچیس برسوں سے چیرنوبل کے قریبی گاؤں میں مقیم ہیں اور اپنی ذہنی طور پر معذور بہن سونیا (تصویر میں دائیں) کی دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ وہ فخر سے کہتی ہیں کہ انہیں تابکار مود سے خوف نہیں اور وہ مشروم کو اتنا ابالتی ہیں کہ اُن میں سے تابکاری اثر ختم ہو جاتا ہے۔ فوٹو گرفر علینا اُن سے کسی مرتبہ مل چکی ہیں۔
جلدی میں گھربار چھوڑنے والے مقامی لوگ
چھیاسی برس کی گانیا اپنی بہن سونیا کے ساتھ چیرنوبل شہر سے انیس کلومیٹر کی دوری پر واقع گاؤں کُوپُوویٹ میں مقیم ہیں۔ یہ گاؤں چیرنوبل جوہری مرکز کے کھنڈرات کے قریب ہے۔ اپریل سن 1986 میں جوہری مرکز کی تباہی کے بعد کُوپُوویٹ گاؤں کے سینکڑوں لوگ گھربار چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ ان ویران مکانات میں سے ایک گانیا کا اسٹور ہے۔ اسی میں اُس نے اپنے تابوت رکھے ہوئے ہیں۔
مرے ہوئے لوگ کہاں گئے
فوٹوگرافو علینا روڈیا کے مطابق چیرنوبل ٹریجڈی کے بعد کُوپُوویٹ گاؤں کا قبرستان بھی یوکرائن کے دوسرے قبرستانوں جیسا ہو کر رہ گیا تھا۔ کُوپُوویٹ کے گرنے والے مکانات سے لوگوں کو نکال لیا گیا تھا اور وہ تابکاری زون سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن اُن کی واپسی مرنے کے بعد ہو گی جب اُن کی تدفین گاؤں کے قبرستان میں کی جائے گی۔
بابا مارُوسیا کی آخری خواہش
کُوپُوویٹ کے باسی اپنے مرے ہوئے اہل خانہ کی قبروں کی دیکھ بھال ضرور کرتے ہیں۔ انہی میں سے ایک بزرگ خاتون بابا مارؑوسیا ہے۔ وہ گاؤں اپنی والدہ کی قبر کو صاف کرنے آئی ہوئی تھیں کہ فوٹوگرافر علینا سے ملاقات ہوئی۔ مارُوسیا نے بتایا کہ اُس کی خواہش ہے کہ مرنے کے بعد اُسے شوہر کی قبر کے ساتھ نہیں بلکہ ماں کی قبر کے پہلو میں دفن کیا جائے۔ اُن کی ایک بیٹی یوکرائنی دارالحکومت کییف میں رہتی ہے۔
ساموسیلی: واپس لوٹنے والوں کا ایک اور گاؤں
گالینا ایک دوسرے گاؤں ساموسیلی کی باسی ہیں اور وہ واپس لوٹ کر اپنے گاؤں میں پھر سے آباد ہو چکی ہیں۔ اُن کی عمر بیاسی برس کی ہے۔ وہ اُن چند افراد میں سے ہے، جو اب واپس آ چکے ہیں۔ گالینا اپنی پرانی یادوں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ جوانی میں وہ دنیا بھر کی سیر کرنے کی تمنا رکھتی تھیں لیکن وہ زندگی میں کییف سے آگے نہیں جا سکی ہیں۔
اپنی دنیا میں زندگی گزارنے والے
ایوان ایوانووچ اور اُن کی بیوی ایسے چند سو لوگوں میں سے ہیں، جنہوں نے کُوپُوویٹ واپس آنے میں بہتری محسوس کی۔ وہ اسی کی دہائی میں تابکاری سے متاثرہ اس علاقے میں لوٹ آئے تھے۔ ایوان اس علاقے کا دورہ کرنے والوں کے لیے ایک اسٹار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اُن کی اہلیہ چند برس قبل رحلت پا گئی تھیں۔ علینا جب بھی ایوان سے ملتی ہے، تو وہ اسے کئی واقعات سناتا ہے، جو حقیقت اور تصورات کی دنیا سے جڑی ہوتی ہیں۔
ماضی کے گواہ
رواں برس چھبیس اپریل کو چیرنوبل حادثے کی بتسویں برسی منائی گئی۔ فوٹوگرافر علینا روڈیا کو ایک اور گاؤں اوپاچیچی جانے کا اتفاق ہوا۔ اس گاؤں میں اُس کی ملاقات ایک اور بڑھیا سے ہوئی۔ وہ اسی گاؤں میں برسوں سے مقیم ہے۔ اس گاؤں کے بیشتر لوگ اب مر چکے ہیں۔ کھلے خالی گھروں میں خطوط، تصاویر بکھری ہوئی ہیں۔ ان گھروں میں یوکرائنی کشیدہ کاری کے تولیے اور فرنیچر آنے والوں کو تکتے رہتے ہیں۔
چپکے چپکے خداحافظ کہنے والے لوگ
مارُوسیا مسلسل اپنے شوہر ایوان کو دیکھتی رہتی ہے، جو اب شدید علیل ہو چکا ہے۔ اُس پر فالج کا حملہ ہوا اور اب وہ ڈیمینشیا کا مریض بن چکا ہے۔ ماروسیا کے مطابق وہ اکثر راتوں میں اٹھ کر باہر نکل کر اپنے ٹریکٹر کو تلاش کرتا ہے۔ ایوان بیالیس برس تک کام کرتا رہا ہے۔ بوڑھی مارُوسیا بھی اب اپنی سست روی سے آنے والی موت کی منتظر ہے اور وہ کہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں پر بوجھ نہیں بننا چاہتی۔
مرنے کے بعد کا انتظام
مارُوسیا کے شوہر ایوان نے بیمار ہونے سے پہلے اپنے اور بیوی کے لیے دو تابوت مکمل کر کے رکھ چھوڑے ہیں۔ یہ دونوں تابوت اُن کے مکان کے ساتھ والے مکان میں رکھے ہوئے ہیں۔ مارُوسیا کے مطابق نیچے والا تابوت اُس کا ہے اور اوپر والا تابوت اُس کے شوہر ایوان کا ہے۔
ساموسیلی گاؤں کے آخری باسی
علینا کے مطابق ساموسیلی گاؤں میں اب بھی چند ایسے لوگ آباد ہیں، جنہوں نے اس مقام پر زندگی بسر کرنے کا خود فیصلہ کیا تھا۔ علینا روڈیا بھی چیرنوبل کے قریبی علاقے میں پیدا ہوئی تھی اور وہ ان دیہات میں کئی مرتبہ آ چکی ہے اور ہر مرتبہ اُس پر اداسی پہلے کے مقابلے میں زیادہ طاری ہو جاتی ہے۔ سبھی لوگوں کی عمریں ستر برس سے زائد ہیں علینا جب بھی یہاں آتی ہے تو کسی نہ کسی کی موت واقع ہو چکی ہوتی ہے۔