چینی آبادی میں شہریوں اور بوڑھوں کا تناسب بڑھتا ہوا
28 اپریل 2011سن دو ہزار میں چین کی کل آبادی ایک ارب ستائیس کروڑ تھی اور دس سالوں میں اس آبادی کی بڑھنے کی سالانہ شرح سابقہ دہائیوں کے مقابلے میں سست رہی۔ پاپولیشن پر کنٹرول کی سخت پالیسی کی وجہ سے اگلے سالوں میں چینی آبادی میں اضافے کی شرح اور بھی کم ہو جائے گی۔
تازہ ترین مردم شماری کے مطابق چین میں شہری آبادکاری میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس باعث چینی شہروں کا حجم پھیل رہا ہے۔ چین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تناظر میں چینی حکومت فیملی پلاننگ کی ’ایک بچے کی پالیسی‘ پر نظرثانی کر سکتی ہے۔
اس مردم شماری کے حوالے سے چینی دارالحکومت میں قائم پبلک پالیسی کے معروی امریکی تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوٹ سے وابستہ آبادی کے مسائل پر نظر رکھنے والے وینگ فینگ کا کہنا ہے کہ نئے اعداد و شمار سے ظاہر ہوا ہے کہ زراعت پر انحصار کرنے والے لوگ بھی اب شہری زندگی کا لطف اٹھانے کی خاطر نقل مکانی کر رہے ہیں۔
فینگ کا مزید کہنا ہے کہ اس کے علاوہ چینی اقتصادیات میں روز افزوں اضافے کی وجہ سے لیبر مارکیٹ کا جہاں حجم بڑھے گا وہاں اس میں سماجی و معاشرتی تبدیلیوں کے پیدا ہونے کے امکان کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آبادی میں عمر رسیدہ افراد کے تناسب کے حوالے سے فینگ کا کہنا ہے کہ اگلے سالوں میں چین کی روزگار کی منڈیوں میں نوجوان کارکنوں کی قلت یقینی طور پیدا ہو گی۔
چین کے قومی ادارہ برائے شماریات کے سربراہ ما ژیانگ تانگ نے مردم شماری کے حقائق عام کرنے کے لیے طلب کی گئی پریس کانفرنس میں بتایا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ کئی تیز رفتار تبد لیوں کا عمل پرسکون نہیں ہوتا اور بسا اوقات اندازوں سے کہیں زیادہ جلد ایسی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں جو منفی اور مثبت، دونوں طرح کے اثرات کی حامل ہوتی ہیں۔
ژیانگ تانگ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مردم شماری کے اعداد و شمار حکومت کو آگاہ کرتے ہیں کہ یہ ملک آبادی کے حوالے سے کچھ مسائل کا سامنا کر رہا ہے اور اس میں عمر رسیدگی کے علاوہ نقل مکانی کرنے والی آبادی کا حجم بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ژیانگ تانگ نے سابقہ حکومتی پالیسی میں کسی تبدیلی کا عندیہ نہیں دیا لیکن ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ جو اعداد و شمار حاصل ہوئے ان کی روشنی میں مروجہ پالیسیوں میں کمی بیشی کے امکان موجود ہے۔
بیجنگ کی رینمِن یونیورسٹی کے آبادی اورترقیاتی علوم کے شعبے کے ریسرچر دُو پینگ کا کہنا ہے کہ مردم شماری کے حقائق کے حوالے سے اگلے پانچ سال بہت اہم ہیں اور ان سالوں میں حکومت فیملی پلاننگ قوانین میں نرمی کے بارے میں سوچ سکتی ہے اور ’ایک بچے کی پالیسی‘ میں نرمی بھی کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین ⁄ خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک