چینی صوبے سنکیانگ میں برقعے اور داڑھی پر پابندی کا فیصلہ
1 اپریل 2017چینی حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر برقعے پہننے اور داڑھی رکھنے کی پابندی کا اطلاق ہفتہ پہلی اپریل سے ہوا۔ اسی طرح چینی حکومت نے انتہا پسند عقائد کے فروغ اور انہیں پھیلانے کو بھی خلاف ضابطہ قرار دے دیا گیا ہے۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی وژن پر حکومتی پالیسیوں کے بارے میں پیش کیے جانے والے پراپیگنڈے کو سننے یا دیکھنے سے انکار بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
چینی مسلمانوں کو ڈی این اے نمونے کی شرط پر سفری دستاویزات کا اجرا
ایغور انتہاپسندوں کی بڑھتی جہادی سرگرمیاں اور چینی سفارتکاری
چینی صوبے سنکیانگ میں روزہ رکھنے پر ’پابندی‘
بیجنگ کی جانب سے نافذ کیے جانے والے ضابطوں کے تحت بچوں کو نیشنل تعلیمی پروگرام سے دور رکھنے کی بھی ممانعت کر دی گئی ہے۔ ان حکومتی پابندیوں کا متن صوبائی اور مرکزی حکومتوں کی ویب سائٹس پر بھی جاری کر دیا گیا ہے۔
قبل ازیں چینی حکومت نے ایغور نسل کے لوگوں کو پاسپورٹ جاری کرنے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ نماز کی ادائیگی کو گھروں تک محدود کیا جا چکا ہے۔ بچوں کے لیے مذہبی تعلیم منع کر دی گئی ہے۔ اسی طرح ماہِ رمضان کے دوران روزے رکھنا بھی خلافِ قانون قرار دیا جا چکا ہے۔
انسانی حقوق کے اداروں نے ان پابندیوں کو ایغور نسل کے بنیادی حقوق کے منافی قرار دے رکھا ہے۔ چینی موقف یہ ہے کہ ایغور نسل کے علیحدگی پسندوں نے چین میں کئی پرتشدد حملے کیے ہیں اور ان میں کئی ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔
چینی موقف کے حوالے سے بعض بین الاقوامی حلقوں کا خیال ہے کہ چین ایغور افراد پر پابندیوں کے نفاذ کے سلسلے میں معمولی واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کر رہا ہے۔
چینی حکومت کوصوبے سنکیانگ کے ایغور مسلمانوں میں پائی جانے والی انتہا پسندی سے پریشانی لاحق ہے۔ اس باعث بیجنگ حکومت ایغور نسل کے مسلمانوں کو مختلف پابندیوں کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش میں ہے۔ ایغور مسلمانوں کا کہنا ہے کہ چینی حکومت اُن کے مذہب، زبان اور ثقافت کو جابرانہ اور امتیازی پالیسیوں سے مٹانے کی کوشش میں ہے۔