چینی مسلمانوں کو ڈی این اے نمونے کی شرط پر پاسپورٹ ملے گا
8 جون 2016چینی حکومت کی جانب سےجاری کردہ ان تازہ ترین احکامات میں کہا گیا ہے کہ سنکیانگ صوبے میں بسنے والے مسلمانوں کو سفری دستاویزات صرف اسی صورت میں جاری کی جائیں گی، جب وہ اپنے ڈی این اے کا نمونہ دیں گے۔
مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان سنکیانگ صوبے میں امن کے اعتبار سے خاصا حساس ہوتا ہے۔ بیجنگ حکومت الزام عائد کرتی ہے کہ اس مسلم اکثریتی صوبے میں ایغور نسل کے باشندے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث رہے ہیں، جن میں حالیہ کچھ برسوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
تاہم اب حکام نے اس صوبے کے رہائشیوں سے کہا ہے کہ وہ سفری دستاویزات کے لیے دی جانے والے درخواستوں کے ساتھ اپنے ڈی این اے کے نمونے، انگلیوں کے نشانات اور آواز کے نمونے بھی دیں گے۔ اس کے علاوہ ان باشندوں کو سہ جہتی تصاویر جمع کرنے کے لیے بھی کہا گیا ہے اور ان تمام دستاویزات اور نمونوں کے بعد کسی شخص کو پاسپورٹ جاری کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ اس علاقے کے رہنے والوں کو ہانگ کانگ اور مکاؤ جیسے چینی انتظامی علاقوں یا تائیوان جانے کے لیے پاسپورٹ کے علاوہ ایک علیحدہ اجازت نامہ بھی درکار ہو گا۔
اس نئی پالیسی کا اطلاق ماہ رمضان سے کیا جا چکا ہے، جب کہ انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ چینی حکومت ملک کی اس مسلم اقلیت کے ساتھ غیرمساوی سلوک برت رہی ہے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ ان دستاویزات کے لیے متعلقہ نمونے جمع نہ کرانے پر پاسپورٹ کے حصول کے لیے دی جانے والی درخواستیں مسترد کر دی جائیں گی۔
اس سے قبل سنکیانگ کی حکومت نے اپنی ویب سائٹ پر کمیونسٹ پارٹی کے ارکان، حکومتی عہدیداروں، طلبہ اور کم عمر افراد کو روزہ نہ رکھنے کی ہدایات جاری کی تھیں۔ ویب سائٹ میں کہا گیا تھا کہ ماہ رمضان میں کھانے پینے سے متعلق دکانیں کسی صورت بند نہ ہوں۔
ایغور مسلمانوں کا موقف ہے کہ چینی حکومت اپنی سخت پالیسیوں کے ذریعے مسلمانوں کی ثقافت اور مذہب پر اثر انداز ہونا چاہتی ہے اور یہ غیرمساوی سلوک انہیں پالیسیوں کا مظہر ہے۔