1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چینی وزیر اعظم کا دورہء جرمنی

24 مئی 2013

نو منتخب چینی وزیر اعظم لی کیچیانگ بھارت اور پھر پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد اس وقت سوئٹزرلینڈ میں ہیں۔ 26 اور 27 مئی کو وہ جرمنی کے دو روزہ سرکاری دورے پر برلن پہنچ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/18dLN
تصویر: Reuters

وزیر اعظم کی حیثیت سے اگلے دَس برسوں تک عوامی جمہوریہء چین کی باگ ڈور لی کیچیانگ کے ہاتھوں میں ہو گی اور اس بات کو بہت اہم خیال کیا جا رہا ہے کہ یورپی یونین میں اپنے پہلے دورے کے لیے اُنہوں نے جرمنی کا انتخاب کیا ہے۔

جرمنی اور چین کے ’شاندار تجارتی تعلقات‘

چینی مہمان کے دورے کے پروگرام میں سب سے پہلے برلن کے نواحی شہر پوٹسڈام کے محل سانسوسی کی سیر شامل ہے۔ پرشیا کے بادشاہ فریڈرش نے یہ محل تقریباً 250 سال پہلے تعمیر کروایا تھا اور یہ وہ دور تھا، جب چین پر اُس شہنشاہ چیان لونگ کی حکومت تھی، جس کے دور میں چین اپنی تاریخ میں سب سے زیادہ پھیلا۔

آج چین جاپان سے پہلے دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور جلد ہی امریکا کی جگہ دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک بننے والا ہے۔ چین تقریباً تین ٹریلین یورو کے ساتھ زرِ مبادلہ کے سب سے بڑے ذخائر کا بھی مالک ہے۔ یورپ میں جرمنی چین کا اہم ترین تجارتی ساتھی ہے۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل
جرمن چانسلر انگیلا میرکلتصویر: picture alliance / dpa

لی کیچیانگ نے اپنے دورہء جرمنی سے پہلے جرمن ہفت روزہ جریدے ’دی سائٹ‘ میں اپنے ایک مضمون میں جرمنی اور چین کے تعلقات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ اس میں سب سے پہلے دونوں ملکوں کے مابین قائم شاندار اقتصادی تعلقات پر زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ دو طرفہ تجارت چین اور یورپی یونین کے مابین تجارت کے حجم کے تیس فیصد کے برابر ہے۔ مزید یہ کہ 2012ء میں چین میں جرمنی کی سرمایہ کاری 28 فیصد کے اضافے کے ساتھ بڑھ کر ایک ارب یورو تک پہنچ گئی۔ اس مضمون کے مطابق جرمنی میں کی جانے والی غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے چین تیسرے نمبر پر ہے اور بی ایم ڈبلیو کے لیے چین سب سے بڑی واحد منڈی ہے وغیرہ وغیرہ۔

تجارتی تنازعہ اور تامینی اقدامات

ظاہر ہے کہ لی کیچیانگ کے دورہء جرمنی کے دوران اقتصادی معاملات کو اولین اہمیت حاصل رہے گی۔ اس نکتے پر زور دیتے ہوئے جرمن شہر ٹریئر کے چینی امور کے ماہر سیباستیان ہائل مان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا:’’اس دورے کے دوران بنیادی اہمیت اس بات کو دی جائے گی کہ اقتصادی تعلقات کو شفاف رکھا جائے اور یورپ میں تامینی اقدامات کو عمل میں آنے سے روکا جائے۔‘‘ اس سلسلے میں چین کے نزدیک وفاقی جرمن حکومت کا کردار مرکزی اہمیت کا حامل ہے، جو آزادانہ تجارت کے حق میں ہے اور تامینی اقدامات کی مخالفت کرتی ہے۔

لی کے اِس دورے سے کچھ ہی پہلے یورپی یونین اور چین کے درمیان تجارتی تنازعے میں مزید شدت آ گئی ہے اور اس تنازعے کو بھی برلن میں ہونے والے چینی جرمن مذاکرات کے ایجنڈے میں مرکزی اہمیت حاصل رہے گی۔ ایک ساتھ کئی محاذوں پر چین اور یورپی یونین کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ یونین نے چین سے شمسی پینلز کی درآمدات پر تعزیری محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ چین کی موبائل فون ٹیکنالوجی کے خلاف بھی اینٹی ڈمپنگ کے الزام میں کارروائی شروع کیے جانے کا اعلان ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ چینی فضائی کمپنیاں اپنی حکومت کے کہنے پر اپنی پروازوں کے لیے یورپی یونین کے آلودگی کے حقوق خریدنے سے انکار کر رہی ہیں، جس کی پاداش میں اِن کمپنیوں کے یورپی یونین میں داخل ہونے پر پابندی بھی لگ سکتی ہے۔

بیجنگ کے ایک کار شو میں جرمن کمپنی بی ایم ڈبلیو کا ایک نیا ماڈل متعارف کروایا جا رہا ہے
بیجنگ کے ایک کار شو میں جرمن کمپنی بی ایم ڈبلیو کا ایک نیا ماڈل متعارف کروایا جا رہا ہےتصویر: dapd

یورپی یونین کے ہاں چین کی جانب مشترکہ حمکت عملی کا فُقدان

چینی امور کے ماہر ہائل مان کے مطابق جرمنی چین کے ساتھ کوئی تجارتی جنگ شروع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ ایسی کوئی بھی صورتِ حال چین کی جانب جرمن برآمدات پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔ اِس کا نتیجہ ہائل مان کے مطابق جرمن خارجہ سیاست اور یورپی کمیشن کے درمیان کشیدگی کی صورت میں برآمد ہو سکتا ہے۔ یورپی ممالک چین کی جانب کوئی مشترکہ پالیسی تشکیل دینے اور پھر اُس پر عمل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہے۔ برلن کے چینی امور کے ماہر ایبرہارڈ زانڈ شنائیڈر نے ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے کہا:’’چین کی جانب یورپ کی 28 پالیسیاں ہیں۔ یورپی یونین کے ہر رکن ملک کی اپنی اپنی پالیسی سے ہَٹ کر ایک اضافی پالیسی یورپی یونین کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے پاس ہمیشہ یہ امکان موجود رہتا ہے کہ اگر اُس کے مفاد میں ہو تو وہ یورپی ممالک کو آپس ہی میں الجھا سکتا ہے۔‘‘

26 مئی کو جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی لی کیچیانگ کے ساتھ ملاقات اپنی نوعیت کی پہلی ملاقات نہیں ہو گی۔ دونوں ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ آخری مرتبہ جب میرکل چین گئی تھیں، تو لی بھی مذاکرات میں شامل ہوئے تھے۔ اور جب لی مارچ میں وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے، تو بیرونی دنیا سے پہلی سیاستدان کے طور پر میرکل نے ہی اُنہیں ٹیلیفون پر مبارکباد دی تھی۔

برلن میں چینی وزیر اعظم کے دورے کے پروگرام میں سب سے آخر میں پیر 27 مئی کو 94 سالہ سابق جرمن چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے ساتھ ملاقات شامل ہے۔ شمٹ نے ابھی اپریل میں چین کے بارے میں اپنی نئی کتاب ’ایک آخری دورہ‘ کے نام سے شائع کی تھی۔

M.v.Hein/aa/ai