چین ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے پریشان کیوں ہے؟
9 جولائی 2015چینی صدر شی جن پنگ، روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور دیگر رہنما روسی شہر اُوفا میں آج جمعرات سے شروع ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم ایس سی او کے دو روزہ سربراہی اجلاس کے موقع پر افغانستان کی سلامتی صورت حال اور وہاں شدت پسند تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے بڑھتے خطرات سے متعلق بات چیت کر رہے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے افغان امور کے ماہر برہان عثمان نے کہا، ’اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردانہ کارروائیوں کے بڑھتے واقعات کے باعث افغان سلامتی کو نئی طرز کے خطرات لاحق ہیں۔‘
چینی نائب وزیرخارجہ چینگ گوپنگ نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ’شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے رہنما یقینی طور پر افغانستان کے موضوع پر تفصیلی بات چیت کریں گے۔ اس گفتگو میں افغانستان میں سلامتی کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے گا۔‘
چین کو تشویش ہے کہ اس کے مغربی صوبے سنکیانگ میں متحرک علیحدگی پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ساتھ مل سکتے ہیں۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک چین، روس، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان ہیں، جب کہ افغانستان کے پاس مبصر کا درجہ ہے۔
ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں افغانستان جائزہ نیٹ ورک نامی ادارے سے وابستہ برہان عثمان نے کہا، ’بیجنگ کو خوف یہ ہے کہ اگر اسلامک اسٹیٹ نے افغانستان میں قدم جما لیے تو اس سے چینی مفادات کو خطرات لاحق ہو جائیں گے۔ طالبان سے چینی حکومت ویسا خطرہ محسوس نہیں کرتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ چین میں متحرک مشرقی ترکستان اسلامک موومنٹ (ETIM) بیجنگ حکومت کے لیے بڑا خطرہ بن سکتی ہے کیوں کہ سنکیانگ صوبے کے مسلم ایغور باشندے شدت پسندی اور جہادی کارروائیوں کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ فعال ہو گئی، تو ترکستان اسلامک موومنٹ کو بھی مستقبل میں اپنی سرگرمیاں بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے اور یہی بات بیجنگ حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
عثمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں فی الحال طالبان اور ’اسلامک اسٹیٹ‘ کےجہادیوں کے درمیان بڑی جھڑپیں نہیں دیکھی گئی ہیں:’’افغانستان کے وہ علاقے جہاں طالبان کا قبضہ ہے، وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے لیے فعال ہونا آسان نہیں۔ اس لیے افغانستان میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے اثر و رسوخ میں اچانک کسی بہت زیادہ اضافے کا امکان نظر نہیں آتا۔‘
وصلت حسرت نظامی/ عاطف توقیر
امجد علی