چین سمندری تنازعے کی شدت میں کمی کا خواہاں
9 اکتوبر 2013لی کیچیانگ کا آسیان کے دو روزہ سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایک پر امن بحیرہ جنوبی چین ہر ایک کے لیے ایک نعمت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بحیرہ جنوبی چین کو امن، دوستی اور تعاون کا سمندر بنانے کے لیے مشترکہ کوشش کریں۔‘‘
آسیان تنظیم میں شریک بعض ایسے ممالک جو بحیرہ جنوبی چین پر کسی نہ کسی حوالے سے اپنا حق جتاتے ہیں، چین کی طرف سے ایسے اقدامات پر تحفظات کا اظہار کر چکے ہیں، جو وہ اس سمندری علاقے کو اپنی سمندری حدود ثابت کرنے کے حوالے سے کر چکا ہے۔
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کی بنیاد آٹھ اگست 1967ء میں رکھی گئی تھی۔ ابتدا میں اس تنظیم میں انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن اور تھائی لینڈ شامل تھے۔ تاہم بعد میں برونائی، میانمار، کمبوڈیا، لاؤس اور ویتنام بھی اس تنظیم میں شامل ہو چکے ہیں۔
600 ملین کی آبادی رکھنے والے آسیان ریجن کے ممالک ایک مشترکہ منڈی کے قیام اور بنیادی پیداوری صلاحیت پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں تاکہ وہ چین اور بھارت جیسی ابھرتی ہوئی معیشتوں کا مقابلہ کر سکیں۔ تاہم اس بارے میں اب تک ابہام ہے کہ آیا یہ تنظیم طے شدہ وقت یعنی 2015ء تک اپنا یہ ہدف حاصل کر سکے گی۔
برونائی کے سلطان حسن البولکیا کا افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ آسیان ریجن کی مجموعی معاشی صورتحال امید افزا ہے، لیکن دو برس کے بقیہ وقت میں ہماری کمیونٹی کے اہداف کو حاصل کرنے میں ہمیں ابھی بھی چیلنجز کا سامنا ہے۔‘‘
چینی وزیراعظم لی کیچیانگ نے اپنے خطاب میں آسیان ریجن اور چین کے درمیان تجارت کا حجم بڑھانے پر بھی زور دیا۔ گزشتہ برس چین آسیان باہمی تجارت کا مجموعی حجم 400 بلین ڈالرز کے برابر رہا تھا۔ چینی وزیراعظم نے 2020ء تک یہ تجارت ایک ٹریلین ڈالر تک لے جانے کی ضرورت پر زور دیا۔
آسیان کی طرف سے 16 ممالک پر مشتمل ایک فری ٹریڈ زون کے قیام کی کوششیں بھی جاری ہیں، جسے ’ریجنل کمپری ہنسیو اکنامک پارٹنر شپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ آسیان ممالک کے علاوہ ان میں آسٹریلیا، چین، بھارت، جاپان، جنوبی کوریا اور نیوزی لینڈ کو شامل کرنے کی تجویز ہے۔
آسیان ممالک کے اس دو روزہ سربراہی اجلاس میں چین کے علاوہ امریکا، جاپان اور جنوبی کوریا بھی شامل ہیں۔ امریکا میں جاری جزوی بندش کے حوالے سے مصروفیات کے باعث امریکی صدر باراک اوباما کی نمائندگی وزیر خارجہ جان کیری کر رہے ہیں۔