چین میں دس لاکھ مسلمانوں کے حراستی کیمپوں کی حیثیت اب قانونی
11 اکتوبر 2018اس بارے میں اگرچہ سرکاری طور پر چینی حکام کی طرف سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے شمال مغرب میں واقع صوبے سنکیانگ میں، جہاں ایغور نسل کی قومی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد اکثریت میں ہیں، قریب ایک ملین تک مسلمانوں کو ایسے حراستی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
سنکیانگ میں صوبائی حکومت نے اب ایسی قانون سازی کر دی ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے ان حراستی کیمپوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ چینی حکمرانوں کے مطابق بدھ دس اکتوبر کو کی جانے والی قانونی ترامیم کے تحت ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اب ان مسلمانوں کو ایسے ’تعلیمی اور تربیتی مراکز‘ میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔
کئی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ نام نہاد ’ٹریننگ سینٹرز‘ عملاﹰ ایسے حراستی مراکز ہیں، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران قریب ایک ملین اقلیتی مسلم باشندوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔
’نظریاتی تعلیم اور نفسیاتی بحالی‘
یہ قانون سازی جس سرکاری مسودے کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس کے مطابق چین کے مختلف صوبوں کی علاقائی حکومتیں ’’ایسے پیشہ ورانہ تعلیمی تربیتی مراکز قائم کر سکتی ہیں، جہاں ایسے افراد کی تعلیم کے ذریعے اصلاح کی جا سکے، جو شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو چکے ہوں۔‘‘
لیکن حقیقت میں ایسے مراکز میں زیر حراست افراد کو بظاہر صرف مینڈیرین (چینی میں بولی جانے والی اکثریتی زبان) اور پیشہ ورانہ ہنر ہی نہیں سکھائے جاتے، بلکہ نئی قانونی ترامیم کے ذریعے یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ ایسے افراد کو ’نظریاتی تعلیم، نفسیاتی بحالی اور رویوں میں اصلاح‘ جیسی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔
بیجنگ میں ملکی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے کہ یہ مراکز چینی مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ کوئی حراستی مراکز ہیں۔ تاہم ساتھ ہی حکام نے مختلف مواقع پر یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بہت چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو بھی ایسے مراکز میں بھیجا گیا ہے۔
’اسلام کی جبری مذمت‘
ان کیمپوں میں کچھ عرصہ پہلے تک زیر حراست رکھے جانے والے کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ انہیں دوران حراست اس امر پر مجبور کیا گیا کہ وہ بطور ایک عقیدے کے اسلام کی مذمت کریں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی غیر مشروط وفاداری کا اظہار کریں۔
آسٹریلیا میں میلبورن کی لا ٹروب یونیورسٹی کے چینی حکومت کے ملکی نسلی اقلیتوں سے متعلق پالیسی امور کے ماہرجیمز لائبولڈ نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں ایسے حراستی مراکز کے قیام کے کافی عرصے بعد اب جا کر کہیں کی جانے والی ان قانونی ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ اس چینی صوبے میں ایغور، قزاق اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے افراد کے لاکھوں کی تعداد میں زیر حراست رکھے جانے کو جائز قرار دیا جا سکے۔‘‘
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس سلسلے میں ایغور، قزاق اور دیگر چینی مسلم اقلیتوں کے ان افراد کے بیرون ملک مقیم بہت سے رشتہ داروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ جب سے حکام نے ایسے حراستی کیمپ قائم کیے ہیں، یہ بیرون ملک مقیم چینی یا چینی نژاد باشندے چین میں اپنے رشتے داروں سے رابطے کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔
حلال مصنوعات اور نقاب پر بھی پابندی
چین کے اس صوبے میں، جو جغرافیائی حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے بہت قریب ہے، حکام ماضی میں مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی حلال مصنوعات کی خرید و فروخت اور خواتین کی طرف سے نقاب اور حجاب کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکے ہیں۔
چینی حکومتی اہلکاروں کے مطابق چین کے اس خطے میں کئی ایسے انتہا پسند موجود ہیں، جن کے مختلف دہشت گرد گروپوں سے رابطے ہیں۔ چینی حکام اب تک لیکن اپنے ان دعووں کے حق میں چند ایک بہت معمولی شواہد سے زیادہ حقائق سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
سنکیانگ میں ’ایغور مسلم اکثریت کا توڑ‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بیجنگ میں مرکزی حکومت اور سنکیانگ میں صوبائی حکومت کی گزشتہ کئی عشروں سے کوشش ہے کہ وہ سنکیانگ کی مسلم آبادی میں بتدریج سر اٹھانے والے علیحدگی پسندی کی اس تحریک کو کچل دیں، جس کی ایک بڑی وجہ وہاں مقامی باشندوں میں پائی جانے والی بددلی ہے۔
ایغور مسلمانوں میں اس بددلی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ماضی میں اس صوبے میں ایغور مسلم باشندوں کی اکثریت تھی لیکن پھر بیجنگ نے ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت وہاں داخلی نقل مکانی کر کے آنے والے ایسے باشندوں کو آباد کرنا شروع کر دیا، جن کا تعلق ہان نسل کی آبادی سے ہے۔ مجموعی طور پر چین میں ہان نسل کے باشندوں ہی کی اکثریت ہے۔
م م / ع ا / اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے