چین پھر تنقید کی زد میں، اس بار مسئلہ نایاب عناصر
19 جنوری 2010کئی کمیاب ارضیاتی عناصر ایسے ہیں، جن کے حصول کے لئے دنیا زیادہ تر صرف چین پر انحصار کرتی ہے۔ چند کمیاب عناصر ایسے بھی ہیں، جن کی بین الاقوامی سطح پر برآمد میں چین کا حصہ 97 فیصد تک بنتا ہے۔ یہ نایاب عناصر کیا ہیں؟ کیا اس حوالے سے بیجنگ پر کی جانے والی تنقید بجا ہے؟
یہ کہا جا سکتا ہے کہ نایاب عناصر ہی تمام جدید ایجادات کی بنیاد اور محرک ہیں۔ علم کیمیا کے Periodic Table میں نایاب عناصر کا شمار 17 مشکل سے ملنے والے عناصر میں ہوتا ہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ چین کہ پاس ان نایاب عناصر کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔ یہ عناصر زمین کی بالائی سطح پر پائے جاتے ہیں لیکن یہ اتنے بھی نایاب نہیں جتنا کہ ان کے نام سے ظاہر ہوتا ہے۔
یہ عناصر جب زمین سے نکالے جاتے ہیں تو عموما چند دوسرے عناصر کے ساتھ آمیزے کی شکل میں ہوتے ہیں یا اُن سے چپکے ہوتے ہیں۔ اسی لئے زمین سے نکالے جانے کے بعد انہیں دوسرے کیمیائی عناصر سے علیحدہ کرنا لازمی ہوتا ہے۔
بیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کے ترقی نے نایاب عناصر کو دیگر کیمیائی مادوں سے علیحدہ کرنے کا عمل آسان بنا دیا، جس کے بعد ماہرین نے ان عناصر کی خصوصیات کو استعمال کرتے ہوئے ان سے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔
فلیٹ سکرین ٹیلی وژن سے لے کر iPod اور گھریلو استعمال کی بہت سی دیگر اشیاء تک، بے شمار مصنوعات کی تیاری میں انہی نایاب عناصر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان میں سے Neodymium ایک اہم عنصر ہے جسے آج سب سے طاقتور مقناطیس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جرمن کمپنی ڈوئچے ٹیکنا کے کلاؤس مارٹِن بلَیشرٹ کہتے ہیں: "بڑے پیمانے پر اس طاقتور مقناطیس کا استعمال تقریبا 15 سال پہلے عام ہو گیا تھا۔ اب نیوڈائیمیم کے اس استعمال میں مزید جدت آتی جا رہی ہے۔ چھوٹے سائز کے یہ مقناطیس اتنے طاقتور ہوتے ہیں کہ اُن سے بہت چھوٹی چھوٹی مصنوعات بھی تیار کی جا سکتی ہیں۔ ایسے چھوٹے مقناطیس قلیل تعداد میں کئی خاص طرح کی مشینوں میں بھی استعمال کئے جاتے ہیں، مثلا کمپیوٹرز اور موبائل فونز کی تیاری کے علاوہ کارسازی کی صنعت میں بھی۔"
کینیڈا کی Rare Elements Resources نامی کمپنی کے اعلیٰ عہدیدار مارک براؤن کا کہنا ہے کہ تحفظ ماحول کے لئے تیارکردہ مصنوعات سے لے کر ملٹری ٹیکنالوجی تک ہر شعبے میں ان نایاب عناصر کا استعمال ہوتا ہے۔
ان نایاب عناصر میں سے نیوڈائیمیم، لینتھانم اور سیرئیم کی مانگ ان دنوں بہت زیادہ ہے۔ ان عناصر کا بہت زیادہ استعمال ہوا سے بجلی پیدا کرنے کی صنعت میں بھی ہوتا ہے جہاں یہ مختلف طرح کے ٹربائن کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔ فوجی سطح پر ان کا استعمال خاص طور پر سمارٹ بموں، جدید ترین لڑاکا طیاروں اور جنگی بحری جہازوں کی تیاری میں کیا جاتا ہے۔ اسی لئے ایسے نایاب عناصر کی چین سے بیرونی دنیا کو برآمد میں کمی کے بیجنگ حکومت کے فیصلے پر بہت سے ملک، خاص کر امریکہ بہت ناراض ہے۔
قبل ازیں 2009 میں جب یہ رپورٹیں بھی سامنے آئی تھیں کہ چین اپنے ہاں قیمتی نایاب عناصر پر ریاستی گرفت سخت کر رہا ہے، تو بھی اس سے مغربی دنیا تشویش میں مبتلا ہو گئی تھی۔ اب بیجنگ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں ان عناصر کی مجموعی پیداوار کا صرف 25 فیصد حصہ برآمد کرے گی کیونکہ 2012 تک چین میں غالبا ان عناصر کی پیداوار بس اتنی ہی ہوگی کہ وہ ملکی ضروریات کو ہی پورا کرسکے گی۔
کئی حلقوں کا خیال ہے کہ چینی حکومت نے یہ فیصلہ اس لئے کیا ہے کہ بیرونی کمپنیوں کو اس امر پر مجبور کر سکے کہ وہ اپنے پیداواری یونٹ چین منتقل کر دیں۔
مارک براؤن کویقین ہے کہ چین مکمل طور پر ان نایاب مادوں کی برآمد بند نہیں کرے گا۔ "چین خود ایسی ٹیکنالوجیز پر کام کر رہا ہے جن کے لئے اسے خود بھی ایسے عناصر کی ضرورت ہے۔ اس نے اپنی برآمدات میں کمی اسی لئے کی ہے۔"
اندازہ ہے کہ امریکہ، کینیڈا، جنوبی افریقہ اور آسڑیلیا سمیت کئی ممالک میں نایاب عناصر کی مجموعی پیداوار 2014 تک صرف 50 ہزار ٹن تک ہی ہو سکے گی حالانکہ تب تک ان کی طلب ایک لاکھ اسی ہزار ٹن ہو چکی ہوگی۔ یہ صورتِ حال چین کے لئے سیاسی اور معاشی طور پر فائدہ مند ہوگی۔
رپورٹ: عبدالستار
ادارت: مقبول ملک