چین کی طرف سے پاکستان کو میزائل ٹریکنگ سسٹم کی فراہمی
23 مارچ 2018دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹارئرڈ انعام الرحیم کے خیال میں اس ٹیکنالوجی کی بدولت پاکستان بھارت کا مقابلہ کر سکتا ہے، ’’آج کے دور میں بیلنس آف پاورکو نظر انداز کرنا تباہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بھارت روایتی طور پر مضبوط ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے ہمیں فوری طور پر بھارت کے عزائم کا پتہ چل سکتا ہے اور ہم بھر پور جواب کی تیاری کر سکتے ہیں۔ ہم نے اس ٹیکنالوجی کی آج نمائش بھی کی ہے، جس سے بھارت کو ایک بھر پور پیغام جائے گا کہ وہ خطے میں کوئی بھی ایڈوینچر کرنے کی کوشش نہ کرے۔ بھارت نے پہلے ہی ایل او سی کو گرم کیا ہوا ہے اور وہ بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ ہمارے سفارتکاروں کو بھی تنگ کر رہا۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسے موقع پر اس ٹیکنالوجی کا پاکستان کو ملنا بہت اچھا ہے۔‘‘
’بھارت اسرائیل سے اینٹی ٹینک میزائل خریدے گا‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’بین الاقوامی طور پر اب روس نے ایسے میزائل تیار کر لئے ہیں، جن کو ٹریس بھی نہیں کیا جا سکتا لیکن ہمارا مقابلہ بھارت کے ساتھ ہے۔ ابھی یہ ٹیکنالوجی یا امریکی اسٹیلتھ طیارے بھارت کے پاس نہیں آئے ہیں۔ جب یہ ٹیکنالوجی بھارت کے پاس آئے گی تو پھر ہمارے لئے مشکلات ہوں گی۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ دفاعی شعبے میں بھر پور کفالت کی طرف جائے۔ میزائل ٹریکنگ ٹیکنالوجی کے علاوہ ہمارے پاس بہترین ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بھی ہیں، جن سے ہماری دفاعی پوزیشن بہتر ہوگی۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ چین نے پاکستان کو یہ ٹیکنالوجی اس لئے دی ہے کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا نہیں چاہتا، ’’چین معاشی طور پر تیز رفتار انداز میں ترقی کرنا چاہتا ہے۔ اس تیز رفتار ترقی کے لئے سی پیک ایک اہم عنصر ہے اور سی پیک اسی وقت کامیاب ہوگا جب پاکستان مستحکم اور مضبوط ہوگا۔ تو چین کا اس حوالے سے پاکستان کی مدد کرنا قدرتی عمل ہے کیونکہ امریکا خطے میں بھارت کو مضبوط کر کے چین کی اس ترقی کو روکنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن نے ابھی دو بلین ڈالرز کی ڈرون ٹیکنالوجی بھارت کو دی ہے۔ اوباما نے یہ ٹیکنالوجی دینے سے انکار کر دیا تھا لیکن ٹرمپ نے چین کے خلاف محاذ کھولا ہوا ہے۔ اس لئے اس نے یہ ٹیکنالوجی بھارت کو دے دی ہے کیونکہ وہ چین اور پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔‘‘
بھارت کا بیلسٹک میزائلوں کے خلاف ’انٹرسیپٹر‘ کا کامیاب تجربہ
اسلام آباد کی قائدِ اعظم یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کی وجہ سے خطے میں ہتھیاروں کی دوڑ شروع نہیں ہوگی،’’یہ دوڑ تو پہلے ہی سے شروع ہے۔ بھارت کے پاس پہلے ہی برہمو سمیت کئی جدید میزائل ہیں۔ اس کے پاس میزائل ٹریکنگ ٹیکنالوجی بھی ہے۔ وہ پہلے ہی اسرائیل اور امریکا کی مدد سے جدید سے جدید ترین ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان نے صرف ایک بیلنسنگ ایکٹ کیا ہے، جو ہمارے دفاع کے لئے بہت ضروری ہے۔‘‘
اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہء بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ پروفیسر امان میمن کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی غیر دانشمندانہ پالیسیاں جنوبی ایشیا کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں،’’امریکا چین کا راستہ روکنے کے لئے اور خطے میں اس کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے بھارت کو بے تحاشا ہتھیار دے رہا ہے اور اس کو عسکری لحاظ سے بہت مضبوط کر رہا ہے۔ یہ سمجھے بغیر کہ بھارت میں ایک قوم پرست تنظیم بر سرِ اقتدار ہے، جو خطے میں کسی بھی وقت جنگ کے شعلے بھڑکا سکتی ہے۔ پاکستان کا اس صورتِ حال سے پریشان ہونا فطری عمل ہے۔ لیکن یہ بد قسمتی کی بات ہے کہ دونوں ممالک اپنے وسائل ان ہتھیاروں پر لگا رہے ہیں اور نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ دونوں ممالک میں غربت بڑھ رہی ہے اور انسانی ترقی کے انڈیکس میں دونوں ممالک پیچھے ہیں۔ میرے خیال میں پاکستان اور بھارت کو دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ مل کر ہتھیاروں کی اس لعنت کو ختم کرنے کی بات کرنی چاہیے۔ یہ بات خیالی لگتی ہے لیکن خطے کو تباہی سے بچانے کے لئے یہ کرنا پڑے گا۔‘‘