چیچنیا میں شرعی قوانین، روسی اختیار کے لئے خطرہ
27 اگست 2010چیچنیا میں ان حالیہ تبدیلیوں کے حوالے سے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماسکو حکومت شمالی قفقاز میں اپنے کنٹرول کے لئے سخت گیر چیچن رہنما رمضان قادروف پر انحصار کرتی ہے۔ اس علاقے میں تقریباﹰ ایک دہائی قبل دو جنگوں کے بعد علیحٰدگی پسندوں کو اقتدار سے خارج کر دیا گیا تھا۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس خطے کو قابو میں رکھنے کے لئے اپنے حریفوں کے خلاف کریک ڈاؤن اور اسلام کے بارے میں انتہاپسندانہ نظریات کا نفاذ قادروف کے طریقہء کار میں شامل ہے، جس سے چیچنیا ایک مرتبہ پھر علیحٰدگی کی جانب بڑھ سکتا ہے۔
تاہم قادروف کا کہنا ہے کہ ایسے دعووں کا مقصد انہیں بدنام کرنا ہے۔ واضح رہے کہ وہ 1990ء کی دہائی میں وہ خود بھی روس کے خلاف چیچنیا کی علیحٰدگی کی پہلی جنگ لڑ چکے ہیں۔ تاہم 1999ء میں اس تنازعے نے دوبارہ سر اٹھایا تو وہ ماسکو کے حلیف بن گئے۔
لندن کے آئی ایچ ایس جینز انفارمیشن گروپ میں یورپ اور ایشیائی امور کے تجزیہ کار میتھیو کلیمنٹس کا کہنا ہے، ’قادروف نے قانونِ شریعت اپنا لیا ہے۔ وہ چیچنیا میں اس آزادی کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں، جو 15 سال تک جاری رہنے والی بغاوت اور شدت پسندی سے حاصل نہ ہوسکی‘۔
اس سے قبل رواں ماہ چیچنیا کے روحانی رہنما نے رمضان کے مہینے میں تمام ریستوراں اور کھانے پینے کے دیگر مراکز بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ دوسری جانب بیشتر خواتین کی جانب سے شکایات سامنے آئی ہیں کہ ہیڈاسکارف نہ اوڑھنے پر اُنہیں ہراساں کیا گیا۔ خواتین کو دھمکانے میں ملوث پائے گئے افراد کا کہنا ہے کہ انہیں مذہبی حکام کی جانب سے ایسا کرنے کی ہدایات ہیں۔ دوسری جانب قادروف نے بھی ایسی کارروائیوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن پر ایک بیان میں کہا کہ وہ ان کارروائیوں میں شریک افراد کے شکر گزار ہیں۔
کلیمنٹس کا کہنا ہے کہ ماسکو حکام نے انتہاپسندانہ سرگرمیوں میں کمی کے بدلے قادروف کی جانب سے جبراﹰ نافذ کے گئے نظریہء اسلام کو برداشت کیا ہے لیکن قادروف نے اپنے اختیار سے مزید تجاوز کیا، تو یہ توازن بگڑ بھی سکتا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی