چیک جمہوریہ داعش کے ستائے عراقی مسیحیوں کو پناہ دے گا
14 دسمبر 2015چیک جمہوریہ کے وزیر اعظم بوسلاف سابوٹکا کا کہنا ہے، ’’مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو دولت اسلامیہ کی جارحیت کے باعث مشکل حالات کا سامنا تھا اور انہوں نے چیک جمہوریہ کی مدد مانگی ہے۔‘‘
سابوٹکا نے یہ بھی بتایا کہ ان مہاجرین کی کل تعداد 153 ہے اور فی الوقت یہ لوگ عراقی کرد علاقوں اور لبنان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ تارکین وطن آئندہ برس جنوری اور اپریل کے درمیان چیک جمہوریہ پہنچیں گے۔
چیک جمہوریہ کے وزیراعظم نے مزید کہا، ’’ہمارے ملک میں انہیں بین الاقوامی تحفظ دیا جائے گا، ان کے لیے ہمارے معاشرے میں ضم ہونے اور ایک نئی زندگی شروع کرنے کا موقع میسر ہو سکے گا۔‘‘
عراقی مسیحی چیک جمہوریہ میں پناہ حاصل کرنے والے اولین تارکین وطن ہیں۔ اس سے قبل مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران پراگ حکومت نے صرف چند درجن تارکین وطن کی پناہ کی باقاعدہ درخواستیں وصول کی ہیں جن پر تاحال فیصلہ نہیں سنایا گیا۔
گزشتہ ہفتے چیک جمہوریہ کے پڑوسی ملک سلوواکیہ میں بھی ڈیڑھ سو عراقی مسیحیوں کو پناہ ملی ہے۔ مسیحی اقلیت سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن نے سلوواکیہ کی حکومت سے مدد کی درخواست کی تھی۔
چیک جمہوریہ اور سلوواکیا مشرقی یورپ میں واقع سابق سوویت ریاستیں ہیں۔ دونوں ممالک کو 2004ء میں یورپی یونین کی رکنیت ملی تھی۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ دونوں ممالک یورپی یونین کی جانب سے پیش کردہ مہاجرین کو یورپ میں تقسیم کرنے کے منصوبے کے مخالف ہیں۔
1993ء تک یہ دونوں ممالک چیکوسلوواکیا فیڈریشن کا حصہ تھے۔ دونوں ریاستوں کی جانب سے عراقی مسیحیوں کو پناہ دینے کا رضاکارانہ اعلان یورپی یونین کے تجویز کردہ مہاجرین کے کوٹے کا حصہ نہیں ہے۔
مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران محض چند درجن تارکین وطن نے ان دونوں ممالک میں پناہ کی درخواست دے رکھی ہے۔ جب کہ مشرق وسطیٰ سے آنے والے لاکھوں مہاجرین نے جرمنی اور دیگر شمالی یورپی ممالک کا رخ اختیار کیا ہے۔
چیک جمہوریہ کے صدر یلوس زیمان کو مسلمان ممالک سے آنے والے تارکین وطن کے خلاف بیانات دینے پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ پراگ حکومت پر مہاجرین کو حراست میں لینے اور ان سے غیر انسانی سلوک کرنے پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے۔