1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈاکٹر شاہد مسعود کے انکشافات، معاشرہ اور صحافتی برادری تقسیم

عبدالستار، اسلام آباد
29 جنوری 2018

پاکستانی میڈیا اینکر پرسن اور صحافی ڈاکٹر شاہد مسعود کی طرف سے زینب کے مبینہ قاتل کے بارے میں ہونے والے انکشافات پر پاکستانی معاشرہ اورصحافتی برادری تقسیم نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے کھل کر بحث ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/2risY
Protest in Karachi nach der Ermordung der siebenjährigen Zainab
تصویر: Faria Sahar

پاکستانی صحافی برادری کا ایک بڑا حلقہ جہاں ڈاکٹر شاہد مسعود کے بیانات پر تنقید کر رہا ہے وہیں کچھ اُن کے دفاع میں بھی نکل آئے ہیں۔ ان انکشافات نے نہ صرف نون لیگ کو چراغ پا کیا بلکہ ملک کی اعلیٰ عدلیہ کو بھی مجبور کیا کہ وہ ان انکشافات کا نوٹس لے۔

 لیکن پاکستانی صحافت پر گہری نظر رکھنے والوں کے خیال میں یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں اس طرح کی غیر تصدیق شدہ خبر کو پھیلایا گیا ہے۔

 معروف صحافی اور سابق ایڈیٹر روزنامہ ڈان، ضیاء الدین کے خیال میں ایسی خبروں کی ملک میں پہلے سے ہی ایک تاریخ موجود ہے۔ ضیاالدین نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’جنرل ضیاء کے دور میں جعلی اور غیر تصدیق شدہ خبریں تواتر کے ساتھ پی ٹی وی سے نشر کی جاتی تھی تاکہ عوام میں ذوالفقار علی بھٹو کے امیج کو خراب کیا جائے۔ نہ صرف پی ٹی وی بلکہ اخبارات میں بھی ایسی خبریں چھپوائی جاتی تھیں۔ جس سے میڈیا پر لوگوں کا اعتماد بہت کم ہوگیا تھا ۔ اب جو رہا سہا اعتماد تھا ، ڈاکٹر شاہد مسعود کی اس جعلی خبر کی وجہ سے وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ لوگوں نے ٹاک شوز دیکھنا بہت کم کر دیے ہیں اور انہوں نے نیوز اینکرز کی خبروں اور تبصروں کو سنجیدگی سے لینا چھوڑ دیا ہے۔اس سے پاکستان کی صحافت کو بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’شاہد مسعود کو اس بات کی فکر ہی نہیں کہ ان کی ساکھ متاثر ہوئی ہے یا ان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہماری صحافت بھی سیاست کی طرح تقسیم ہے۔ ناظرین کا ایک حلقہ ہے جو نون لیگ کے خلاف خبروں اور تبصروں کو مزے لے کر دیکھتا ہے اور کچھ اینکرز اس وجہ سے مشہوربھی ہیں۔‘‘

شاہد مسعود کے خلاف ممکنہ عدالتی اقدامات کے حوالے سے اُن کا کہنا تھا۔ ’’میرے خیال میں ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا کیونکہ عدلیہ بھی رائٹ سائیڈ آف دی میڈیا رہنا چاہتی ہے۔ عدالتوں میں میڈیا مالکان اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف ہتک عزت کے کئی مقدمات پڑے ہوئے ہیں لیکن ایسے مقدمات کو شازو نادر ہی لیا جاتا ہے۔ تو میرے خیال میں ان کے خلاف کچھ نہیں ہوگا۔‘‘

کئی تجزیہ نگاروں کے خیال میں ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف تنقید کا سیلاب اس لئے امڈ آیا ہے کیونکہ وہ نون لیگ اور دوسرے سیاست دانوں کے خلاف بولتے رہے ہیں۔ اس حوالے سے جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے کہا،’’ڈاکٹر شاہد مسعود کے خلاف محاذ ایسے کھول دیا گیا ہے جیسے کہ دنیا میں اس قسم کے گینگ کام ہی نہ کرتے ہوں ، جو بچوں کے جنسی استحصال میں ملوث ہوں۔ اس میں کیا اچنبھے کی بات ہے کہ دنیا میں ایسے گروہ ہوں اور اس میں کچھ پاکستانی ملوث بھی ہوں۔ دراصل ڈاکڑ شاہد مسعود کے خلاف یہ طوفان اس لئے اٹھایا گیا ہے کہ انہوں نے ڈاکڑ عاصم، اسحاق ڈار، رانا ثناء اور ان ہی جیسے کئی کرپٹ لوگوں کے چہروں سے نقابیں اتاریں۔ اس کے علاوہ میڈیا انڈسٹری میں بھی کئی اینکرز ان سے حسد رکھتے ہیں اور اب وہ بھی اپنا ذاتی عناد نکال رہے ہیں۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ شاہد مسعود کے پاس یقیناًکچھ ہے۔ ’’آپ دیکھیں کہ شاہد مسعود نے عدالت میں معافی بھی نہیں مانگی۔ میرا اپنا خیال ہے کہ اگر پانامہ طرز کی کوئی مضبوط جے آئی ٹی بنی تو وہ اس کو ضرور ثبوت فراہم کریں گے اور ان ثبوت کے بعد اس چائلڈ سیکس اسیکنڈل میں بہت سے کردار بھی آشکار ہو سکتے ہیں۔‘‘

سینیئرصحافی اور روزنامہ مورننگ میل کے ایگزیکٹو ایڈیٹر فرمان علی کے خیال میں ان جعلی خبروں کی روک تھام کے لئے صحافتی برادری کو آگے آنا پڑے گا۔ فرمان علی نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ہم نے کئی برس پہلے یہ تجویز کیا تھا کہ ایک میڈیا کونسل بنائی جائے جس میں صحافی، مدیران، مالکان اور دوسرے اسٹیک ہولڈرز بھی شامل ہوں، جو میڈیا واچ ڈوگ کے طور پر کام کرے۔‘‘

 فرمان علی کے مطابق  ہر ادارے میں ایک میڈیا محتسب کی تقرری کی جانی چاہیے جو آزادانہ طور پر ہر ادارے کے خلاف شکایات سنے۔ علاواہ ازیں اینکرز پرسنز کے پروگراموں کی نگرانی کے لئے مدیران مقرر کئے جائیں تاکہ خبروں کی صحیح طور جانچ پڑتال کی جا سکے۔