ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی پر بین الاقوامی رد عمل
6 فروری 2009مغربی دنیا کے ہر بڑے اخبار اور نشریاتی ادارے نے اس خبر کو بلاتاخیر اپنی ویب سائٹ پر جگہ دی اور اس کے لئے سرخیاں یہ استعمال کی گئیں کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر خان کی نظر بندی ختم، A.Q.Khan کو عدالت نے رہا کردیا یا پھر یہ کہ اسلامی ایٹم بم کے خالق کو رہائی مل گئی۔
برطانوی اخبار Guardian نے ڈاکٹر قدیر خان کی رہائی کی خبر پر سرخی یہ لگائی کہ پاکستان کے اس ایٹمی سائنسدان کو رہائی مل گئی ہے جس پر خفیہ صنعتی معلومات کے حصول کے لئے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ اس برطانوی اخبار نے لکھا کہ اگر کبھی دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے نتیجے میں کوئی بہت بڑی تباہی آئی تو کوئی نہ کوئی 1936 میں بھوپال میں پیدا ہونے والے اس پاکستانی سائنسدان کا نام بھی لے گا جنہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کا بین الاقوامی تاجر سمجا جاتا ہے۔
CBS نیوزنامی نشریاتی ادارے نے اس واقعے کے بارے میں اپنی ویب سائٹ پر لکھا کہ ایران، لیبیا اور شمالی کوریا کو ایٹمی ٹیکنالوجی بیچنے والے بین الاقوامی نیٹ ورک کی سربراہی کا اعتراف کرنے والے ڈاکٹر قدیر خان کو 2004 سے جاری گھر پر نظر بندی اور قریب پانچ سالہ قانونی لڑائی کے بعد رہائی مل گئی ہے۔
برطانوی اخبار فنانشل ٹائیمز نے اس بارے میں لکھا کہ 1974 میں بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کے بعد ڈاکٹر خان پاکستانی جوہری پروگرام میں شامل ہو گئے تھے اور انہی کے فیصلہ کن کردار کی وجہ سے 1998میں پاکستان اپنا پہلا ایٹمی تجربہ کرنے میں کامیاب رہا۔
سوئٹزرلینڈ میں زیورچ سے شائع ہونے والے اخبار Neue Zürcher Zeitung نے لکھا کہ اسلامی ایٹم بم تیار کرنے والے متنازعہ پاکستانی سائنسدان کو عدالت نے رہا کردیا۔ مغربی ملکوں میں سے جس ملک کی حکومت نے عبدالقدیر خان کی رہائی پر سب سے پہلے اپنا رد عمل ظاہر کیا وہ فرانس تھا۔ پیرس میں فرانسیسی وزارت خارجہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر قدرے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر کان اور ان کے نیٹ ورک نے فوجی مقاصد کے لئے ایٹمی ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ میں جو کردار ادا کیا وہ کوئی خفیہ بات نہیں اور اب صرف امید ہی کی جاسکتی ہے کہ ان کی طرف سے ایٹمی راز افشاء کئے جانے کے دن گذر چکے ہیں۔