ڈرامائی موڑ، حسنی مبارک قتل اور کرپشن کے مقدمات میں بری
29 نومبر 2014آج قاہرہ کی کریمنل کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ناکافی شواہد کی بنیاد پر مبارک پر عائد قتل کے الزامات کو خارج کیا جاتا ہے۔ سن دوہزار گیارہ میں مصر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے دوران تقریباﹰ آٹھ سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
آج عدالت نے مبارک، ان کے بیٹوں اور ان کے بزنس پارٹنز پر عائد بدعنوانی کے الزامات کو بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تین عشروں تک صدر کے عہدے پر فائز رہنے والے چھیاسی سالہ مبارک ایک دوسرے کرپشن کیس میں جرائم ثابت ہونے پر اس وقت تین سال کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ عدالتی کارروائی کے بعد حسنی مبارک کو دوبارہ قاہرہ کے ملٹری ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے، جہاں وہ بیمار ہونے کی وجہ سے اپنی سزا کاٹ رہے ہیں۔
آج بروز ہفتہ حسنی مبارک کے سات سکیورٹی کمانڈروں کو بھی بری کر دیا گیا ہے۔ ممکنہ طور پر ان سات افراد میں سابق وزیر داخلہ حبیب العدلی بھی شامل ہیں۔ آج کمرہ عدالت میں جونہی جج کی طرف سے یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا، کورٹ روم میں بیٹھے افراد نے ایک دوسرے کو مبارکبادیں دینا شروع کر دیں۔ اس فیصلے کے بعد پہلی مرتبہ حسنی مبارک کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ بھی دیکھی گئی۔ حسنی مبارک کے وکیل دفاع کا کہنا تھا کہ آج کا فیصلہ بہت اچھا تھا، اس سے مبارک دور کی دیانتداری ثابت ہوتی ہے۔ آج کے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔
’ظالمانہ فیصلہ‘
قاہرہ میں ہی میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین بھی موجود تھے۔ وہاں کھڑے مصطفیٰ مرسی کا کہنا تھا، ’’ یہ ایک ظالمانہ فیصلہ ہے۔ میرے بیٹے کا خون رائیگاں گیا ہے۔‘‘ مصطفیٰ کا بیٹا 2011ء میں حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں شریک تھا اور ایک پولیس اسٹیشن کے باہر مارا گیا تھا۔
قاہرہ کا تحریر اسکوائر حسنی مبارک کے خلاف ہونے والے مظاہروں کا مرکز رہا ہے۔ لیکن آج وہاں سے گزرنے والے راہگیر منقسم نظر آئے۔ ایک پچاس سالہ خاتون کا کہنا تھا، ’’شہیدوں کو انصاف نہیں ملا ہے۔‘‘ کئی دیگر مصری اس فیصلے سے متفق نظر آئے۔ ایک ریٹائرڈ حکومتی اہلکار مصطفیٰ سعید کا کہنا تھا، ’’ حسنی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔ وہ ایک ایماندار صدر تھا۔‘‘
سن 2011ء میں حسنی مبارک کو شدید عوامی احتجاج کے بعد مستعفی ہونا پڑا تھا۔ اس کے بعد اخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے محمد مرسی مصر کے پہلے جمہوری صدر بنے لیکن انہیں ملکی فوج نے بغاوت کرتے ہوئے قید کر لیا۔ محمد مرسی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے ایک سال بعد حسنی مبارک کے سابق ملٹری انٹیلیجنس چیف عبدالفتاح السیسی نے صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور اب وہ ہی اس ملک کے سربراہ ہیں۔
حکومت کے حامی مقامی میڈیا میں بھی آج کے فیصلے کو سراہا گیا ہے، دوسری جانب اخوان المسلون کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن آج تک جاری ہے جبکہ اس مذہبی جماعت کے بیشتر رہنما جیل میں سزائیں کاٹ رہے ہیں۔