ڈرون حملوں پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان خلیج
8 اپریل 2009پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں پر اختلافات اب کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ اس معاملے پر بڑھتی ہوئی خلیج اور واضح اختلافات کا ذکر خود پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کیا۔ خفیہ سروس کے سابق سربراہ حمید گل نے بھی پاکستان اور امریکہ کے مابین اختلافات کی طرف نشاندہی کی ہے۔
پاکستان نے امریکہ کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک سے کہا ہے کہ پاکستانی سر زمین پر ہونے والے ڈرون حملوں سے دھشت گردی کو فروغ حاصل ہورہا ہے۔ اس حوالے سے حمید گل نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان نے سر اٹھاکر بات کرنے کی جرائت کی ہے۔
فرانسیسی شہر اشٹراسبرگ میں اختتامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان کو مشروط امداد دینے کا عندیہ دیا تھا۔ اس کے بعد امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین ایڈمیرل مائک میولن اور پاک۔افغان امور کے خصوصی مندوب رچرڈ ہالبروک پاکستان پہنچے۔ پاکستانی صدر آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ امریکہ کے خصوصی مندوب ملاقاتوں میں قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے علاوہ پاکستان کو امریکہ کی طرف سے دی جانے والی امداد کے موضوعات پر بات چیت ہوئی۔
مقامی میڈیا کے ذریعے امریکہ کی پاکستان کو مشروط مالی امداد کی پیشکش سے متعلق کسی قسم کی تفصیلات سامنے نہیں آئیں تاہم پاکستان کی خفیہ سروس کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے ڈوئچے ویلے شعبہ اردو کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے امریکہ کی شرائط کی تفصیلات کچھ یوں بتائیں: ’’امریکہ کی شرائط یہ ہیں کہ پاکستان اسی انداز میں خدمات انجام دیتا رہے جیسا کہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں دیتا رہا ہے۔ قبائلیوں کے ساتھ امن معاہدے نہ کرے، سوات کے اندر نفاذ شریعت سے متعلق طے پائے جانے والے معاہدے کہ ختم کر دیا جائے۔ قبائلی علاقوں کے علاوہ امریکہ کے خیال میں پاکستان کے اندر القائدہ کے جو ٹھکانے ہیں ان پر بھی امریکہ کے ڈرون حملوں کی اجازت دی جائے۔ ISI کے لئے جس طرح کے الفاظ امریکی حکام استعمال کر رہے ہیں اس سے پاکستان کے دفاعی اداروں کے درمیان ایک خلیج پیدا ہو رہی ہے۔ سیاستدان اس بارے میں کچھ کہیں یا نہ کہیں، بہرحال پاکستان کے دفاعی ادارے کی افادیت اپنی جگہ موجود ہے۔ لیکن اس کے اندر اب ایک خلاء پیدا ہو رہا ہے۔ مائک میولن نے جنرل کیانی کے ساتھ تقریباً دس ملاقاتیں کی ہیں اور انہیں شیشے میں اتارنے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ وہ وہی انداز اختیار کریں جو سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں کیا جاتا رہا۔‘‘
ریٹائرڈ جنرل حمید گل نے مزید کہا کہ پاکستان اس وقت اپنی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے گوناگوں مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ صدر زرداری کی طرف سے غیر مشروط امداد کے مطالبے پر امریکہ کا کیا رد عمل ہے، حمید گل نے کہا:’’امریکہ نے کہا ہے کہ ابھی اس حوالے سے واشنگٹن میں مزید ملاقاتیں ہو ں گی جن میں شرکت کے لئے ہماری فوجی اور سیاسی قیادت کو طلب کر لیا گیا ہے۔ فی الحال فیصلہ کن انداز میں کوئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ ابھی معاملہ التوا میں ہے۔ پاکستان نے پہلی مرتبہ سر اٹھا کر بات کرنے کی جرائت کی ہے اور پاکستان اس بات کو سمجھ رہا ہے کہ باوجود اس کے کہ ہالبروک نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان اور امریکہ کے مفادات، مقاصد اور دشمن مشترک ہیں تاہم یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ بھارت پاکستان کا دشمن ہے لیکن امریکہ کا تو بہت قریبی دوست ہے۔ یہ ایک واضح تضاد ہے اور اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ تضاد آئندہ کیا رنگ لاتا ہے۔‘‘
امریکہ کی نئی قیادت سے تمام دنیا خاص طور سے اسلامی ممالک میں بین الاقوامی تعلقات میں بہتری کی ایک نئی امید پیدا ہوئی ہے۔ باراک اوباما کے تازہ ترین دورہ استنبول کے دوران انکی طرف سے اسلامی دنیا کے ساتھ افہام و تفہیم اور دوستانہ تعلقات کے حوالے سے جو مثبت بیانات سامنے آئے اس سے امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان میں بش حکومت کے دور میں پائے جانے والے غیر معمولی امریکہ مخالف جذبات میں کمی واقع ہوگی تاہم ریٹائرڈ جنرل حمید گل کہتے ہیں: ’’باراک اوباما نے کہا تھا کہ وہ پاک امریکہ تعلقات میں تبدیلی لائیں گے۔ تاہم انکی نئی پالیسی اور یہ تبدیلی ہمارے لئے مزید مشکلات کا باعث نظر آ رہی ہے۔ انہوں نے کوئی اچھا تائثر نہیں چھوڑا ہے۔سیاست ہو یا معیشت مجموعی طور پر باراک اوباما کی تبدیلیوں والا طیارہ ابھی رن وے پر ہی کھڑا ہے اس نے ابھی ٹیک آف نہیں کیا ہے اور یہ صورتحال تمام دنیا، بالخصوص پاکستان کے لئے، بڑی مشکل کا باعث ہے۔‘‘
منگل کو پاکستان میں امریکی مندوبین اور پاکستانی حکام کی ملاقاتیں ایک ایسے وقت میں عمل میں آئیں جب امریکی روز نامے نیو یارک ٹائمزمیں اس قسم کی خبریں چھپیں کہ امریکہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں مزید ڈرون حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے اور ان حملوں کے دائرے پاکستان کے دیگر علاقوں تک پھیلنے کے امکانات بھی پائے جاتے ہیں، بالخصوص بلوچستان میں یہ حملے متوقع ہیں۔
بعض امریکی حکام نے پہلے ہی یہ کہا ہے کہ طالبان اور القاعدہ کے رہنما بلوچستان میں پناہ لئے ہوئے ہیں جس کے رد عمل میں صوبائی وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ایسے کوئی عناصر موجود نہیں ہیں۔ صوبائی وزیر اعلیٰ نے کہا تھا کہ بلوچستان میں ڈرون حملوں کے خلاف وہاں کے لوگ بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔