ڈونرز کانفرنس: ’شامی شہریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش‘
24 اپریل 2018شام میں کام کرنے والی امدادی تنظیموں نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ اگر اس کئی سالہ تنازعے کا کوئی فوری حل تلاش نہ کیا گیا تو جنگ سے تباہ حال اس ملک سے نقل مکانی بڑھ جائے گی۔ عالمی ادارہ خوراک نے بھی اس موقف کی تائید کرتے ہوئےخبردار کیا ہے کہ اگر اس اجلاس کے دوران شام کے لیے خطیر رقوم جمع نہ ہو سکیں، تو اس جنگ زدہ ملک میں دو ہزار چودہ اور دو ہزار پندرہ جیسے انسانی بحران کی سی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ تب امداد کی کمی کی وجہ سے لاکھوں شامی شہری یورپ کی جانب ترک وطن پر مجبور ہو گئے تھے۔
اپنی نوعیت کے اس ساتویں اجلاس میں یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے اعلیٰ نمائندوں کے ساتھ ساتھ اسّی سے زائد ممالک اور تنظیموں کے وفود بھی شرکت کر رہے ہیں۔ یہ اجلاس دو روز تک جاری رہے گا۔
یورپی حکام کو امید ہے کہ برسلز میں اس کانفرنس کے دوران ساڑھے پانچ ارب یورو سے زائد تک کے مالیاتی وعدے سامنے آ سکتے ہیں، جو گزشتہ برس کی کانفرنس سے زیادہ بڑی رقم ہو گی۔
شامی بچوں کی ايک نسل کو نفسياتی مسائل کا سامنا
شامی جنگ: لاکھوں بچے متاثر لیکن حل کوئی نہيں
یہ کانفرنس ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب ابھی حال ہی میں امریکا، فرانس اور برطانیہ نے شامی فوج کے عسکری مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ ان ممالک کا موقف ہے کہ دوما میں کیے گئے حالیہ کیمیائی حملے کے ذمہ دار صدر اسد کے حامی سرکاری دستے تھے۔
شامی تنازعے کو اب آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ یورپی ذرائع نے بتایا ہے کہ اس دوران پانچ ملین سے زائد شامی شہری ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ تیرہ ملین فوری امداد کے منتظر ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے بہبود اطفال یونیسیف کے مطابق شام میں بنیادی تعلیم سے محروم ہو جانے والے بچوں کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔