1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈیجیٹل مردم شماری: اصلاحات اور خدشات

عبدالستار، اسلام آباد
27 جولائی 2022

پاکستان کی نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے شروع کیا گیا ڈیجیٹل مردم شماری کا پائلٹ فیز تکمیل کے قریب ہے، جس کے بعد امید پیدا ہو چلی ہے کہ ملک میں اب جدید بنیادوں پر مردم شماری ممکن ہو سکے گی۔

https://p.dw.com/p/4EjCt
Pakistan Islam Ahmadiyya  Religion  Muslime
تصویر: Getty Images/A. Ali

واضح رہے کہ نادرا ڈیجیٹل مردم شماری کے پائلٹ پراجیکٹ کی تکمیل کے طرف گامزن ہے، جو اس نے 20جولائی کو 429 بلاکس میں شروع کیا تھا۔ یہ بلاکس تراسی تحصیلوں پر مشتمل تھے، جن کا انتخاب چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقوں سے کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 2017ء کی مردم شماری پر کئی حلقوں کی طرف سے تنقید کی گئی تھی اور سندھ سے متحدہ قومی موومنٹ نے خصوصی طور پریہ سوال اٹھایا تھا کہ کراچی کی آبادی کو کم کرکے دکھایا گیا ہے۔ جب متحدہ قومی موومنٹ نے تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا تو اس اتحاد کی مختلف شرائط میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مردم شماری کو دوبارہ کرایا جائے۔

رواں برس جنوری میں مشترکہ مفادات کونسل نے ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری دی تھی، جس کی سفارش متعلقہ اداروں نے کی تھی۔ ڈیجیٹل مردم شماری میں مردم شماری کے بلاکس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جبکہ فیلڈ فورس میں بھی اضافہ متوقع ہے۔

Pakistan Islam Ahmadiyya  Religion  Muslime
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان بنیادی انفراسٹرکچر میں تبدیلیاں نہیں کرتا، مردم شماری کا یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوگا۔تصویر: Getty Images/A. Ali

واضح رہے کہ 2017ء کی مردم شماری کے پہلے مرحلے میں 79,773 بلاک تھے  جو 61 اضلاع پر مشتمل تھے۔ مردم شماری کے دوسرے مرحلے میں ان بلاکس کی تعداد 89,170 تھی اور یہ 89 اضلاع پر مشتمل تھے۔

ڈیجیٹل مردم شماری کیسے ہوگی؟

ڈپٹی ڈائریکٹر 'جنرل بیورو آف سینسز‘ رابعہ اعوان کے مطابق اب ان بلاکس کی تعداد تقریبا ایک لاکھ 80 ہزار ہوگی اور ایک لاکھ بیس ہزار کی فیلڈ فورس ہوگی، جو اس مردم شماری میں حصہ لے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس ایک لاکھ بیس ہزار کی فیلڈ فورس کو ٹیبلٹس دیے جائیں گے، ایک شمار کرنے والے کو پندرہ دن میں ایک مردم شماری کا بلاک ختم کرنا ہوگا جب کہ دوسرے بلاک میں کام مکمل کرنے کے لیے بھی 15 دن دیے جائیں گے۔‘‘

ڈیجیٹل مردم شماری کا فائدہ

ادارہ شماریات کے ایک سابق سینیئر افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مردم شماری کے پرانا طریقہ کار میں پیسہ بھی بہت لگتا تھا جبکہ وقت بھی بہت درکار ہوتا تھا۔ ہمیں بڑے پیمانے پر فارمز چھپوانا پڑتے تھے، اسٹیشنری خریدنا پڑتی تھی، ان فارمز کے لیے بڑے بڑے ہالوں میں جگہ بنانا پڑتی تھی۔ فیلڈ کارکنان کو پینسل، پیپرز، اسٹیشنری اور بہت سارا دوسرے سامان دیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان میں لکھائی کا بھی مسئلہ تھا۔ بعض اوقات لکھائی درست نہیں ہوتی تھی۔‘‘

اس افسر کے مطابق اب اگر ڈیجیٹل طریقے سے یہ مردم شماری ہو گی تو اس میں بہت آسانی ہوجائے گی اور ''ٹرانسپورٹ اور اسٹوریج کے اخراجات کم ہوں گے۔ وقت بچے گا اور غلطیاں بھی بہت کم ہوں گی۔‘‘

بنیادی ڈھانچے میں تبدیلی

تاہم کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ جب تک پاکستان بنیادی انفراسٹرکچر میں تبدیلیاں نہیں کرتا، مردم شماری کا یہ طریقہ کامیاب نہیں ہوگا۔ سرویز کا وسیع تجربہ رکھنے والے ماہر عامر حسین کا کہنا ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے کہ اس مردم شماری کے عمل کو کامیاب بنائے تو اس کو بہت ساری تبدیلیاں کرنا پڑیں گی۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مردم شماری یا سروے کے دوران آپ کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ فیلڈ کے کارکنان کو مناسب پیسے نہ دیں یا پیسے وقت پر ادا نہ کریں تو وہ ٹیبلٹ لے کے بھاگ جاتے ہیں۔ مردم شماری کے لیے اسٹاف انتہائی تربیت یافتہ ہو، مقامی آبادی سے ہو اور سب سے اہم بات سرور کی اسٹوریج گنجائش بہت زیادہ ہو۔‘‘

کیا ڈیجیٹل مردم شماری سے سے شکایت دور ہوں گی؟

گزشتہ مردم شماری پر ملک کی کئی سیاسی جماعتوں نے اعتراضات اٹھائے تھے۔ تاہم بیورو آف سینسز کے ایک اور افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' ڈیجیٹل مردم شماری سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ جن سیاسی جماعتوں نے یہ اعتراضات اٹھائے تھے ان کو ٹیکنیکل پوائنٹس نہیں معلوم تھے۔ مثال کے طور پر لاہور کی آبادی زیادہ اس لیے ہوئی کیونکہ پنجاب حکومت نے ٹھوکر نیازبیگ اور جوہرٹاؤن سمیت کئی علاقے، جو نوے کی دہائی میں دیہی علاقے کہلاتے تھے، ان کو شہری علاقوں میں شامل کیا، جس کی وجہ سے لاہور کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ بن گئی۔ اگر وہ ان کو شہری علاقوں میں شامل نہ کرتے، تو غالباﹰ لاہور کی آبادی تقریبا 70 یا  77 لاکھ رہتی۔‘‘

اس افسر کے بقول سندھ میں ایسا نہیں ہوا اور سندھ میں جو علاقے کراچی یا حیدرآباد میں 90 کی دہائی میں دیہی علاقوں میں شمار ہوتے تھے، وہ اب بھی انہی علاقوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔