ڈیزرٹیک منصوبہ، شمسی توانائی سے براہ راست فائدہ
10 ستمبر 2009اس پروجیکٹ کے تحت وسیع تر صحرائی علاقے میں لگے شمسی سیل تیز دھوپ کی شعاعوں سے توانائی حاصل کرتے ہوئے، پانی کو اُبلنے کی حد تک گرم کریں گے۔ اس پانی سے بجلی پیدا کرنے والے ٹربائن چلائیں جائیں گے اور پھر ایک ایسا نیا نیٹ ورک یورپ، شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کو آپس میں جوڑ دے گا جو فضا میں کسی بھی طرح کی زہریلی کاربن گیسوں کے اِخراج کا باعث نہیں بنے گا۔
اس منصوبے کے حامی ایک درجن کے قریب ایسے مالیاتی اور صنعتی ادارے ہیں جن میں سے اکثر کا تعلق جرمنی سے ہے، اور جن کا دعویٰ ہے کہ اس پروجیکٹ کی تکمیل کے ساتھ یورپ فضائی آلودگی کے خلاف عالمگیر جنگ میں سب سے اگلے محاذ پر ہوگا۔
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ سینکڑوں بلین یورو مالیت کے اس بین البراعظمی منصوبے کو کئی بڑے خطرات کا سامنا ہے۔ اِن میں افریقہ کی، مغرب کے علاقے کی ریاستیں کہلانے والے ملکوں کی غیر یقینی سیاسی بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ صحارا کے خطے میں اٹھنے والے بڑے ریتلے طوفانوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس امکان کو بھی نہیں کہ جب ڈیزرٹیک کی شمسی تنصیبات کو صاف رکھنے کے لئے بہت سا پانی استعمال کیا جائے گا، تو صحرائی علاقے میں بکھری ہوئی انسانی آبادیوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔
اس کے علاوہ ایک اور بڑا فرق یہ بھی ہے کہ یورپ میں اِن دنوں شمسی توانائی سے بجلی کے حصول کے لئے جو ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے وہ روایتی فوٹو وولٹائک سیلز والی ٹیکنالوجی ہے جو زیادہ پر خطر نہیں ہے۔ لیکن ڈیزرٹیک کے لئے کئی گنا زیادہ طاقت والے ایسے سیل استعمال کئے جائیں گے جو concentrated سولر پاور یا CSP ٹیکنالوجی کہلاتی ہے۔
یہ درست ہے کہ ڈیزرٹیک پروجیکٹ ابھی اپنی ابتدائی منصوبہ بندی کے مراحل میں ہے، لیکن کئی یورپی ملکوں کی حکومتوں کو یقین ہے کہ سن 2050 تک اس منصوبے کی تکمیل کے بعد، یورپ اپنی بجلی کی سالانہ ضروریات کا 15 فیصد تک حصہ افریقہ سے آنے والی ماحول دوست توانائی سے پورا کر سکے گا۔ اِسی اُمید کی بناء پر یورپی ریاستیں موجودہ صدی کے وسط تک، اپنے ہاں سبز مکانی گیسوں کے اِخراج کی شرح میں 1990 کے مقابلے میں 80 فیصد تک کمی کا اِرادہ رکھتی ہیں۔
یورپ میں ڈیزرٹیک منصوبے کی سیاسی اور تکنیکی مخالفت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ قابل تجدید توانائی کی یورپی تنظیم EARE کے سربراہ ہیرمن شیئر کے بقول صحارا کے خطے سے شمالی یورپ کے لئے توانائی کا یہ منصوبہ ایک سراب ثابت ہو گا۔ ہیرمن شیئر وفاقی جرمن پارلیمان کے رکن بھی ہیں اور وہ جرمنی کی قابل تجدید توانائی کے استعمال سے متعلق پالیسی کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ Hermann Scheer کے بقول ڈیزرٹیک پروجیکٹ کے پیچھے کار فرما ادارے اور ماہرین بھی یہ جانتے ہیں کہ اس منصوبے سے حاصل کچھ بھی نہیں ہو گا۔
اس مجوزہ منصوبے میں شامل کئی افریقی ملکوں میں سے ایک مراکش بھی ہے، جو اپنے ہاں استعمال ہونے والی توانائی کا 96 فیصد حصہ درآمد کرتا ہے۔ قابل تجدید توانائی کی یورپی تنظیم کے سربراہ Scheer کے برعکس مراکش میں قابل تجدید توانائی کے ملکی ادارے کے سربراہ سعید مولین کا دعویٰ ہے کہ مراکش میں توانائی کی مجموعی سالانہ کھپت، یورپ میں استعمال ہونے والی توانائی کا ایک فیصد بھی نہیں بنتی۔ تاہم سعید مولین کے بقول ڈیزرٹیک منصوبے پر عمل درآمد کے بعد مراکش نہ صرف توانائی کے شعبے میں خود کفیل ہو جائے گا بلکہ وہ اگلے سو سال تک یورپ کو بے تحاشا توانائی برآمد بھی کر سکے گا۔
ان حالات میں یہ ابھی تک واضح نہیں ہے کہ ’یورپ کے لئے افریقہ سے صحرائی بجلی‘ کا یہ منصوبہ ایک معجزہ ثابت ہوگا یا پھر ایک سراب!
رپورٹ : مقبول ملک
ادارت : کشور مصطفیٰ