ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی کے اکاؤنٹ منجمد
19 جولائی 2013چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جمعے کے روز ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر گوندل کے دور میں مبینہ طور پر ادارے میں 40 ارب روپے سے زائد کی کرپشن پر ازخود نوٹس کی سماعت کی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈی ایچ اے انتظامیہ یہ بات ذہن سے نکال دے کہ وہ قانون سے بالاترہے یا اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ غریب اور نادار بوڑھے پنشنروں کی رقم ہے، جو ضرور واپس لائی جائے گی۔
عدالت نے گزشتہ بدھ کو سماعت کے دوران ڈی ایچ اے حکام سے آج (جمعے ) تک بائیس ارب روپے سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا تھا تاہم عدالتی حکم کی مقررہ وقت میں تعمیل نہ ہونے پر بنک کھاتے منجمد کیے گئے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ڈی ایچ اے کی جانب سے رقم کی ادائیگی تک اکاؤنٹ منجمد ہی رہیں گے۔
عدالتی حکم کے مطابق ڈی ایچ اے اسلام آباد اور راولپنڈی ای او بی آئی سکینڈل کی رقم ادا کرنے تک کوئی نیا اکاؤنٹ بھی نہیں کھلوا سکتی۔
ای او بی آئی سکینڈل کا پس منظر
پاکستانی سپریم کورٹ نے 29 جون کو ایک نجی نیوز چینل پر نشر کیے گئے اس پر وگرام پر از خود نوٹس لیا، جس کے مطا بق ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن میں زمنیوں کی خرید و فروخت کے متعدد سودوں میں 40 ارب سے زائد کی کرپشن کی گئی ہے۔ ای او بی آئی ایک ایسا ادارہ ہے، جو مختلف سرکاری، نیم سرکاری اور نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے ورکروں کی تنخواہ کے ایک مخصوص حصے کی کٹوتی کرتا ہے اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں پنشن اور دیگر مراعات کی مد میں واپس کرتا ہے۔ تاہم سابق چئیرمین ظفر گوندل، جو کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت میں وفاقی وزیر رہنے والے نذر گوندل کے بھائی ہیں، کے دور میں مختلف اداروں سے زمینیں مارکیٹ ریٹ کے مقابلے میں غیر قانونی طریقے سے انتہائی مہنگے داموں خریدی گئیں۔ ان زمینوں کی خریداری کے لئے ادارے کے بورڈ آف ٹرسٹیز سے بھی اجازت نہیں لی گئی۔ ای او بی آئی نے ڈی ایچ اے اسلام آباد راولپنڈی سے 321 کنال زمین 22 ارب روپے کے عوض خریدی۔
ڈی ایچ اے کا مؤقف
ڈی ایچ اے کے وکیل احمر بلال صوفی کا کہنا ہے کہ ای او بی آئی کی رقوم زمین کی خریداری اور ڈیویلپمنٹ پر خرچ کی گئیں اور اس ضمن میں تمام معاہدے قانون کے مطابق کیے گئے۔ وکیل کے مطابق ڈی ایچ اے نے اس منصوبے میں بحریہ ٹاؤن نامی پراپرٹی ڈیویلپرز کو ترقیاتی کاموں کے لئے گیارہ ارب روپے کی رقم ادا کی ہے۔ احمر بلال صوفی نے کہا کہ عدالت ایسا حکم نہ دے، ورنہ ڈی ایچ اے میں زمینوں کی قیمتیں گر جائیں گی۔
ایف آئی اے کی تحقیقات
عدالتی حکم کی روشنی میں اس مقدمے کی تفتیش کرنے والی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق ای بی او آئی اور ڈی ایچ اے کے درمیان ڈیل میں غیر شفافیت واضح ہے۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل اعظم خان کے مطابق زمین نہ صرف مہنگے داموں فروخت کی گئی بلکہ ڈی ایچ اے نے وہاں پر ابھی ترقیاتی کام بھی شروع نہیں کرائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک پانچ ایسے منصوبوں کا پتہ چلایا گیا ہے، جن میں بےضابطگیاں ہوئی ہیں۔
ای او بی آئی نے چکوال میں ساٹھ ہزار روپے فی مرلہ قیمت والی زمین پندرہ لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے خریدی۔ ایف آئی اے کے مطابق اس ڈیل میں ایک سابق وزیر اعظم کے قریبی رشتہ دار بھی ملوث ہیں۔ اعظم خان کے مطابق اس سکینڈل میں ملوث تمام ملزمان کے نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈال دیے گئے ہیں اور ای او بی آئی کے سابق چیئرمین ظفر اقبال گوندل کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارےجا رہے ہیں جبکہ ان کی جائیداد ضبط کر لی گئی ہے۔ اس مقدمے میں اب تک ای او بی آئی کے تین افسران کو حراست میں لیا گیا ہے۔ عدالت نے ایف آئی اے کو اس سکینڈل میں ملوث تمام ملزمان کو گرفتار کر کے مقدمے درج کرنے کی ہدایت کر رکھی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ فوج کے زیر انتظام ڈی ایچ اے کے ادارے کے اکاؤنٹس منجمند کیے گئے ہیں۔ فوج کے سربراہ کو چاہیے تھا کہ وہ اس معاملے کا میڈیا میں آنے کے بعد خود نوٹس لیتے۔ تجزیہ کار اور پا کستانی فوج کی کاروباری سرگرمیوں سے متعلق مشہور کتاب "ملٹری ان کارپوریٹڈ" کی مصنفہ عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ ڈی ایچ اے میں بے قاعدگیوں کے بارے میں کافی عرصے سے شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا:’’جب میں نیب کے ادارے میں بطور مشیر کام کر رہی تھی تو اس وقت ڈی ایچ اے کے ایک ڈائریکٹر کرنل طارق کمال نے نیب کو لکھے گئے ایک خط میں ڈی ایچ اے اسلام آباد اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان ایک سو ارب روپے سے زائد کے ایک غیر قانونی معاہدے کی نشاندہی کی تھی لیکن اس وقت کے چیئرمین فصیح بخاری نے کسی دباؤ کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا تھا۔‘‘ عائشہ صدیقہ کے مطابق اگر اس کی تحقیقات کر لی جاتیں تو بہت سے حقائق سامنے آ سکتے تھے لیکن ان کے بقول شاید فوج بھی نہیں چاہتی تھی کہ اس معاملے کی تحقیقات ہوں۔