ڈیم پراجیکٹ سے بھارتی ٹائیگرز بےگھر ہو جائیں گے
9 نومبر 2015نئی دہلی حکومت کے ڈیم کا پراجیکٹ دریائے بیٹوا پر مکمل کیا جائے گا۔ ایک قریبی دریائےکین کا پانی بھی ضائع ہونے سے بچانے کے لیے حکومت اُس کا رُخ موڑ کر اُسے بھی بیٹوا میں ڈالنے کی پلاننگ کر چکی ہے۔ حکومت کی خواہش ہے کہ سالانہ بنیاد پر اِس دریا کے 660 ملین کیوبک پانی کو ضائع ہونے سے بچانا اشد ضروری ہے اور اِس پانی کو زیراستعمال لانے کے لیے اُسے دریائے بیٹوا میں ڈال دیا جائے گا۔ اِس پلاننگ سے رخ موڑنے کے مقام سے آگے کے دریائے کین کی گزرگاہ پوری طرح خشک ہو کر رہ جائے گی۔ اِس دریا میں بارشوں کے بعد آنے والا پانی علاقے کے جانوروں اور انسانوں کی بقا کا ضامن ہے۔
دریائے کین اور بیٹوا پر سن 1950 کی دہائی میں ایک مٹی کا ڈیم بنایا جا چکا ہے۔ اب اِس ڈیم کی توسیع کی جا رہی ہے۔ یہ دریائی ڈیم مدھیہ پردیش کی ریاست میں ہے۔
دریائے کین کے برساتی پانی پر گزربسر کرنے والے راستے میں بھارت کے پانا ٹائیگرز کا علاقہ ہے۔ اِس نسل کے صرف بتیس ٹائیگرز باقی بچے ہیں۔ یہ ٹائیگرز ڈوڈھن نامی گاؤں کے جنگلوں میں رہتے ہیں۔ اِسی دریا میں مگر مچھ بھی رہتے ہیں جو بارشوں کے بعد آنے والے پانی میں لطف اندوز ہوتے ہیں اور دریا کا رخ موڑنے کے بعد وہ انجام کار خشک ہوتے جوہڑوں میں اپنی زندگی کے آخری ایام بسر کردیں گے۔ اِسی علاقے میں نابود ہوتی گدھ کی ایک نسل بھی پائی جاتی ہے۔ اِس نسل کی صرف سات گدھیں دنیا بھر میں موجود ہیں۔
نایاب جانوروں کے علاوہ دس قبائلی گاؤں بھی اپنے وطن کھو بیٹھیں گے۔ کیں دریا کا پانی دریائے بیٹوا میں ڈالنے سے جو جھیل بنے گی، اُس کی وجہ سے یہ سارا علاقہ ڈوب کر رہ جائے گا۔ یہی دریائے کین دو بھارتی ریاستوں مدھیہ پردیش اور اتر پردیش کے درمیانی علاقے میں بہتا ہے۔ بنیادی طور پر سواچار سو کلومیٹر لمبا دریا انجام کار دریائے جمنا میں گرتا ہے۔ دوسری جانب 600 کلومیٹر لمبائی رکھنے والا بیٹوا نامی دریا اترپردیش کی ریاست میں بہتا ہے۔ بیٹوا بھی دریائے جمنا کا معاون دریا ہے۔
اِس ڈیم کے حوالے سے سرگرم ماحولیاتی ورکروں کا کہنا ہے کہ یہ سماجمی اور ماحولیاتی آفت ہے جو دریا کا رخ موڑنے پر ظاہر ہو گی۔ ایک مقامی سرگرم کارکن اشیش ساگرکا کہنا ہے کہ ڈوڈھن سمیت نو مختلف دیہات جھیل بننے کے بعد ڈوب جائیں گے۔ اِن دونوں دریاؤں کے پانی سے نوہزار ہیکٹر علاقے پر پانی کی جھیل معرضِ وجود میں آئے گی۔ انسانوں سمیت جانور بھی اپنے آبائی گھروں سے محروم ہو جائیں گے۔ ساگر کے مطابق دیہاتیوں کو ایک معمولی رقم دے کر فارغ کرنے کی پلاننگ کی گئی ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ وہ مطالبات کی منظوری کے بغیر اپنی آبائی زمین سے نہیں جائیں گے۔ اِس ڈیم کی حتمی منظوری کے لیے بھارتی سپریم کورٹ نے ایک بورڈ مقرر کر رکھا ہے۔ یہ ڈیم اُس بھارتی پلاننگ کا حصہ ہے، جس کے تحت مختلف سینتیس دریاؤں کو ایک لمبی نہر کے ساتھ جوڑنے کو تجویز کیا گیا ہے۔